دنیا مہنگائی اور بد امنی کی زد میں 

فرنگی بڑی دور اندیش اور ہوشیار قوم ہے اس نے جب انقلاب فرانس میں انقلابیوں کے ہاتھوں فرانس کی اشرافیہ کا انجام دیکھا تو اس کو اپنی اشرافیہ کی فکر دامن گیر ہو گئی اور وہ سوچنے لگی کہ اگر انگلستان میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہ کی گئیں تو جلد یا بدیر انگلستان کے امیروں کا گریبان ہوگا اور غریبوں کے ہاتھ چنانچہ اس نے اپنے ہاں سوشل ویلفیئر سٹیٹ کا نظریہ اپنایا اس کے بعد کئی دوسرے ممالک بھی اس نظرئیے کی طرف راغب ہوئے۔ اس طرح جب ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو حکومت جو بھی قانون سازی کرے عام آدمی کے مفاد کی خاطر کرے، تو سمجھو کہ ایسی حکومت کو عوام کی تائید بھی حاصل ہوگی اور وہاں پر امن و امان کی صورتھال بھی مثالی ہوگی۔جمہوریت میں چونکہ ووٹوں سے حکومتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اس لئے ووٹ دیتے وقت اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھا جائے کہ ایسی جماعت یا افراد کو ووٹ دیا جائے جو عوامی مسائل سے نہ صرف آگاہی رکھتے ہوں بلکہ ان کے حل کرنے میں مخلص بھی ہوں۔اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا ہوجائے، یہ خبر تشویشناک ہے کہ عالمی افراط زر کی شرح میں اضافہ2023 تک جاری رہے گا دنیا بھر میں مہنگائی کی جو لہر اٹھی ہے بلا شبہ اس کی وجوہات میں کورونا کی وبا،یوکرین پر روسی حملہ اور موسمیاتی تبدیلی کے عناصر شامل ہیں چونکہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک معاشی بد حالی کا شکارہیں اس لئے اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے اقوام متحدہ کو آگے آناہوگا یہ وقت یقینا اس کے امتحان کا وقت ہے اور کئی ممالک کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں اور وہ بے چینی سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ مشکل کی اس گھڑی میں کس طرح اپنے فرائض کو سر انجام دیتا ہے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی معاشی بد حالی کو ختم کرنے کے واسطے امریکہ نے مارشل پلان شروع کیا تھا آج اسی طرح کا کوئی ترقیاتی منصوبہ درکار ہے جو اقوام متحدہ عالمی سطح پر بنائے اور بلا شبہ اس منصوبے میں سپر پاورز کو بہت بڑا حصہ ڈالنا ہوگا کیونکہ اقوام متحدہ کا ادارہ ان کی مالی معاونت کے بغیر اتنا بڑا کام نہیں کر سکے گا۔ اس وقت اقوام متحدہ کو مہنگائی کے ساتھ ساتھ عالمی منظرنامے پر ابھرتے ہوئے جنگ کے خطرات کا بھی سامنا ہے جس میں یوکرین اور تائیوان کے تنازعات سرفہرست ہیں۔جہاں تک تائیوان کی بات ہے تو امریکہ نے تائیوان کو 1.1 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دے کر چین کومزید مشتعل کردیا ہے۔اس مجوزہ معاہدے میں ریڈار سسٹم، جس سے فضائی حملوں کو ٹریک کیا جاسکتا ہے، کے علاوہ اینٹی شپ اور اینٹی ایئر میزائل شامل ہیں۔گذشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا۔ وہ 25 برسوں میں تائپے جانے والی سب سے سینیئر امریکی اہلکار ہیں۔واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے امریکہ سے یہ معاہدہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور اسے متنبہ کیا کہ اسے اس کے ردعمل میں اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چینی سفارتخانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے ذریعے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو بری طرح متاثر کیا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین اس صورتحال کے ردعمل میں ٹھوس اور ضروری اقدامات کرے گا۔بیجنگ اس خودمختار جزیرے کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اسے چین کے مرکز سے جوڑنا درکار ہے، حتی کہ اگر ایسا کرنے میں طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑے۔گذشتہ ماہ امریکی وفد کی تائیوان آمد پر چین نے اس کے گرد فوجی مشقیں کیں۔امریکہ نے گزشتہ روز ہتھیاروں کے اس معاہدے کی منظوری دی مگر اب اس پر امریکی کانگریس میں ووٹنگ ہوگی جہاں تائیوان کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے اس معاہدے میں 65 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا ریڈار وارننگ سسٹم اور 35 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے 60 ہارپون میزائل شامل ہیں جن کی مدد سے بحری جہازوں کو ڈبویا جاسکتا ہے پینٹاگون کی ڈیفنس سکیورٹی کوآپریشن ایجنسی کے مطابق اس میں آٹھ کروڑ 56 لاکھ ڈالر کے سائیڈونڈر میزائل شامل ہیں جو زمین سے فضا اور فضا سے فضا میں مار کر سکتے ہیں۔دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ معاہدہ تائیوان کی سالمیت کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے بیجنگ سے مطالبہ کیا کہ وہ تائیوان کے خلاف فوجی، سفارتی اور معاشی دبا ؤختم کرے، اور معنی خیز مذاکرات کی طرف جائے۔اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق گذشہ ماہ پینٹاگون نے بیرونی ملک اتحادیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ تائیوان کی جانب سے برسوں قبل دئیے گئے آرڈر پورے نہیں کیے گئے۔ ڈیفنس نیوز کے مطابق ان آرڈرز میں ہارپون اور سٹنگر میزائل شامل ہیں جنھیں تائیوان کے بجائے یوکرین بھیجا گیا ہے۔اب امریکہ کے اس اقدام سے بیجنگ ناراض ہوا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ چینی درآمدات پر اربوں ڈالر کے ٹیرف کو جاری رکھیں گے۔ ان ٹیکسوں کو ٹرمپ انتظامیہ نے نافذ کیا تھا۔امریکی محکمہ تجارت کے نمائندے کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسے کاروباروں اور دیگر متعلقہ افراد کی جانب سے یہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ 2018 اور 2019 کے دوران نافد کردہ ڈیوٹی کو جاری رکھا جائے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس وقت امریکہ تائیوان کو دوسرا یوکرین بنانے پر تلا ہو اہے۔ یوکرین میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کو للکارا جس کے جواب میں روس نے یوکرین پرچڑھائی کر دی اور اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کردیاہے۔ اس طرح تائیوان بھی چین کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تاہم امریکہ کے کہنے میں آکر چین کے ساتھ تلخی بڑھاتا ہے تو اس کا سراسر نقصان تائیوان کو ہوگا۔