تاریخی شہر 

پشاور کو تاریخی شہر کہا جا تا ہے وجہ یہ ہے کہ اس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور اس کا ثبوت کتا بوں، مقبروں اور آثار قدیمہ میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ شہر کے ارد گرد بنی ہوئی بڑی دیوار اس کی قدامت پر دلا لت کر تی ہے۔اس دیوار کے تما م دروازے اس شہر کے تاریخی ہو نے پر گواہی دیتے ہیں۔گندھا را ہند کو بورڈ اور گندھارا اکیڈمی نے  شہر کے دروازوں پر دستاویز ی فلموں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔یہ ایک بڑا منصو بہ ہے جس کے تحت پشاور کے تاریخی دروازوں کے ساتھ شہر کی فصیل بھی دستا ویزی صورت میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہو گی۔ جس طرح دنیا کی جدید سہو لیات میں ان شہروں کو اولیت دی جا تی ہے جہاں زیر زمین ریلوے کا نظام قائم ہے ان میں لندن کی پوری دنیا میں دھوم ہے۔ ہمارے پڑوس میں تہران، دہلی، بیجنگ اور ما سکو کی شہر ت ہے۔ اس طرح قدیم شہروں میں اولیت ان کو دی جا تی ہے جن کی فصیل ہو، فصیل کے دروازے ہوں مثلا ً قاہرہ، دمشق، بغداد وغیرہ، وطن عزیز پا کستان میں لا ہور، ملتان اور پشاور کو دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیا جا تا ہے عالمی شہرت یا فتہ مورخ اور تاریخ عالم کے مصنف ٹائن بی نے 1960ء کے عشرے میں پشاور کا دورہ کیا۔ انہوں نے پشاور کے قصہ خوا نی بازار، پشاور کی صنعت و حرفت، پشاور کی فصیل اور پشاور کے دروازوں کے بارے میں لکھا۔اس تحریر کا ایک حصہ کا لجوں میں بھی پڑھا یا جا تا ہے۔ 2014ء میں عالمی فیض میلہ کے شر کا ء کو لا ہور میں فصیل شہر کے اندر اُس حصے کی سیر کرائی گئی جہاں مسجدوزیر خا ن اور شا ہی حمام واقع ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ 1998 سے 2014تک 5حکومتیں تبدیل ہوئیں 1998ء میں فصیل شہر اور اس کے اندر قدیم شہری ورثے کو تحفظ دینے کے منصو بے پر کام کا آغاز ہوا تھا، یو نیسکو اور آغا خا ن ٹرسٹ کے ماہرین سائنسی خطوط کی روشنی میں دوہزار سال پر انی مٹی، اتنی ہی پرا نی اینٹوں کی مدد سے کام کر رہے تھے۔ کسی نئی حکومت نے اس منصوبے میں رکا وٹ نہیں ڈالی، فنڈ میں کمی نہیں آنے دی 2014میں بھی اُ سی طرح کا م ہورہا تھا جس طرح 16سال پہلے کا م شروع ہواتھا‘ شاہی حما م کو پوری طرح بحال کیا گیا تھا‘ مسجدوزیر خان کے ارد گرد 100سالوں سے جاری تجا وزات کو ہٹا کر مسجد کو پرانی حا لت میں لایاگیا تھا اور کام جاری تھا ہمیں پنجاب کی سیا سی قیادت اور بیورو کریسی کی مستقل مزا جی پر رشک آیا اس  پراجیکٹ کا نا م والڈ سٹی پر اجیکٹ ہے اور یہ کا م اب بھی جاری ہے۔آج ہمیں پشاور کی فصیل جگہ جگہ سے ٹو ٹی پھو ٹی نظر آرہی ہے بعض مقامات پر نظر ہی نہیں آتی گندھا را ہند کو بورڈ کے دستا ویزی منصو بے میں ہر دروازے کی تاریخ کو الگ الگ محفوظ کرنا بہت اہم ہے ڈبگری دروازہ‘نام‘تاریخ‘ثقافتی اہمیت‘ موجودہ صورت حال‘ پوری فلم کو دیکھ کر پشاور کا شہری ماضی میں گم ہو جا تا ہے سرد چاہ دروازہ‘ آسیا دروازہ‘آسا ما ئی دروازہ‘ کچہری دروازہ‘ ہشت نگری دروازہ‘گنج دروازہ‘ یکہ توت دروازہ‘دو دروازے‘ہر ایک کی الگ تاریخ ہے لا ہوری اور کا بلی دروازے دو شہروں کے ناموں پر ہیں ایک ہزار سال پہلے شام کو سارے دروازے بند کئے جا تے تھے، صبح کھولے جا تے تھے یہ شہر کو محفوظ رکھنے کا طریقہ تھا آج فصیل شہر خود تحفظ ما نگتی ہے۔