سانحات: فراموش پہلو

پاکستان کی ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو کبھی زلزلہ اور کبھی موسمیاتی اثرات جیسا کہ بارشیں اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے اور اِن کی بڑی تعداد مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے ہی ملک میں مجبوراً نقل مکانی اور بے گھر افراد کی زندگی بسر کرتی ہے! کسی علاقے میں امن و امان کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے ہوں یا ’آئی ڈی پیز‘ کی صورت تنازعات کی اِنسانی قیمت اَدا کرنے والے ہوں‘ اِس بات کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ اس طرف توجہ ضروری ہے۔سیلاب کی صورت حالیہ آفت کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کو جو محرکات بتائے جاتے ہیں اُن میں اِس بات کو بھی شامل کرنا چاہئے کہ انسانی بقا کا دارومدار فطرت کے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے یعنی فطرت کرہ ارض پر حاوی ہے انسان نہیں لیکن یہ بات انسان سمجھنے کے باوجود نہیں سمجھ رہے کہ فطرت کا انسانوں کے ساتھ اہم نہیں بلکہ یہ بات اہم ہے کہ انسان فطرت کے ساتھ کس طرح کا سلوک اور تعلق رکھتے ہیں۔ انسانوں کی مجبوری اور ضرورت اِن کی بقا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں فطرت کو نظرانداز کیا جاتا ہے وہاں اِس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ کسی معاشرے میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور قدرتی وسائل کا بے رحمانہ استحصال آفت کا باعث بنتا ہے اور اِس کی وجہ سے مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سال 2010ء میں پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرتے ہوئے ٹھیک 12سال ہو چکے ہیں اور اگر اِن بارہ سالوں کا احتساب کیا جائے تو سیلاب ہوں یا دریا‘ موسم ہوں یا فضائی آلودگی میں اضافے کے اسباب‘ زیادہ تر خرابیوں (معاملات) کی وجہ ملک میں پانی کا غلط انتظام اور اِن سے متعلق ناقص حکمت عملیاں ہیں جن کی وجہ سے تباہی و بربادی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی آفت کے دوران امداد اور اُس کے بعد بحالی کا مرحلہ آتا ہے لیکن پاکستان میں صرف امداد کا مرحلہ بھی اُس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک ذرائع ابلاغ اِس پر توجہ دیتے ہیں۔ بحالی کے اقدامات اکثر نظر انداز رہتے ہیں۔ ہر سیلاب کی طرح اِس مرتبہ بھی بے گھر افراد کو گھروں کی تعمیرنو اور اپنی زرعی معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے خاطرخواہ وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب سے متاثرین کا مسئلہ صرف دو وقت کا کھانا پینا نہیں بلکہ اُنہیں مستقل بنیادوں پر علاج اور تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔ سیلاب متاثرین کو روزی روٹی کے مواقعوں کی فراہمی بھی بحالی کی حکمت عملی کا حصہ ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت درست اعدادوشمار کی ہے۔ اگر حکومت متاثرین سیلاب سے متعلق درست اعدادوشمار مرتب کرے اور اِن متاثرین کو اندرون و بیرون ملک مخیر حضرات اور امدادی اداروں کی کفالت میں دے تو اِس سے متاثرین کی مدد اور بحالی کا عمل نہ صرف مربوط ہوگا بلکہ امداد اور بحالی کی کوششوں میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کا غیرضروری مقابلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کئی ممالک سیلاب متاثرین کی مدد کا اعلان اور امداد کے بعد مزید امداد بھیج رہے ہیں لیکن اِس امداد سے مستفید ہونے والوں کی تعداد اور  کے حوالے سے اعداد وشمار مرتب کرنا ضروری ہے  کیونکہ  اگر سیلاب زدگان کے لئے آنے والی امداد میں خردبرد کی داستانیں عام ہوئیں تو پھر دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کی مدد کے لئے آگے نہیں آئے گا۔ ’سیلاب سے انسانی جانوں کا ضیاع ”المیے“کا صرف ایک پہلو ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مال مویشیوں کی ہلاکت اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور (آئی ڈی پیز) لوگ کئی قسم کے صدمات اور تھکاوٹ سے چکناچور ہیں! لمحہئ فکریہ ہے کہ سیلاب سے وہی لوگ زیادہ بڑی تعداد میں متاثر ہیں جو پہلے ہی غربت اور غذائی قلت کا شکار تھے اور اب انہیں آلودہ پانی کے استعمال اور کھڑے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں کا سامنا ہے جو اِن کی صحت و تندرستی کے لئے ”بڑے خطرات“ میں سے ہیں۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غیرسرکاری تنظیموں کا ردعمل زیادہ تر فوری امداد اور بچاؤ سے متعلق کوششوں سے ہوتا ہے جو طویل المدتی حکمت عملیاں وضع نہیں کر سکتیں اور یہ کام حکومت ہی کا ہے کہ وہ ’آئی ڈی پیز‘ کے لئے طویل مدتی ترقیاتی منصوبہ بندی کرے جو اِس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ایسے واقعات سے  ہم بحیثیت قوم اور بحیثیت رہنما سبق نہیں سیکھتے۔ سیلاب متاثرین کی دریاؤں کے کنارے دوبارہ آبادکاری ایک ایسی غلطی ہوگی جس سے مستقبل میں پشیمانی  کا سامنا ہوگا جبکہ سیلابی پانی کو ذخیرہ نہ کرنے کی صلاحیت اور دریاؤں میں تجاوزات تعمیر کرنے جیسی غطلیاں اگر دہرائی جائیں گی تو اِس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر آفات کی طویل قومی تاریخ کو دیکھا جائے تو اِس بات کا امکان اور اُمید بہت ہی کم ہے کہ اِس مرتبہ سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے کے مصائب و مشکلات کم ہوں گی اور اُنہیں جلد یا بدیر راحت کا احساس ہوگا۔ آفات کے اثرات سے محفوظ مستقبل کے لئے‘ ضروری ہے کہ ایسے علاقوں کی نشاندہی اور آبادکاری کی جائے جو قدرتی آفات کے خطرات سے نسبتاً محفوظ ہیں۔ اگر کوئی خاص ضلع خشک سالی‘ زلزلے‘ قحط یا سیلاب کا بار بار شکار ہو رہا ہے تو اس کی مقامی اِنتظامیہ‘ صوبائی یا وفاقی حکومت کو چاہئے کہ اُس علاقے میں امدادی اِنتظامات کا حسب ِآبادی خاطرخواہ اِنتظام کرے۔ دوئم قدرتی آفات کی آمد سے متعلق قبل اَز وقت خبردار کرنے کے لئے ”وارننگ سسٹم“ اور ضلعی سطح پر ”فوری رسپانس میکانزم“ تک کے تمام ضروری سامان سے لیس ہونا چاہئے۔ پاکستان میں شاید ہی کسی ضلع کے پاس کسی بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ اور آبادی کے تناسب سے وسائل موجود ہوں۔ علاؤہ ازیں جانی نقصانات بچانے‘ فصلوں اور مال مویشیوں کی حفاظت کے بارے میں بھی تیاریاں اور خاطرخواہ انتظامات نہیں ہوتے۔ سیلاب متاثرین کی بحالی کا مرحلہ (چیلنج) درپیش ہے جس سے نمٹتے ہوئے صرف وقتی ضرورت ہی کا نہیں بلکہ مستقبل کے تقاضوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے کیونکہ ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کی صورت ایک بہت بڑی حقیقت‘ جسے اب تک مذاق سمجھا جاتا رہا ظہورپذیر ہو چکی ہے اور سردی ہو یا گرمی موسمیاتی تبدیلیاں متقاضی ہیں کہ اِن سے نمٹنے کی حکمت عملیاں وضع کی جائیں۔