حاجی غلام مصطفی کوگاؤں میں پشوری کہا جاتاتھا لیکن وہ خود پشاور میں اپنا نام غلام مصطفی تریچوی لکھتے تھے اور یہ گاؤں کی نسبت سے اختیار کیا ہوا نام تھا۔ گرمیاں گزارنے گاؤں گئے تھے بیمار ہوئے تو ان کو پشاور لایا گیا۔پشاور میں وفات پائی اور وزیرباغ کے چترالی قبرستان میں دفن ہوئے‘ پشاور میں انہوں نے زندگی کے60برس گذارے،وطن کو نہیں بھولامگر پشاورکو دل سے لگایا آخر پشاورکی مٹی نے ان کے لئے اپنا سینہ چاک کیا اور ان کو اپنے سینے میں جگہ دی۔حاجی غلام مصطفی چترال میں وادی تریچ کے خواجہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد گرامی محمد یعقوب خان خواجہ سابق ریاستی نظم ونسق میں ریونیوآفیسر یعنی چارویلو کے عہدے پرفائز تھے اُس زمانے میں تعلیم عام نہیں تھی میٹرک کے بعد نوجوان کو گھر سے بلاکر ملازمت دی جاتی تھی غلام مصطفی کوبھی میٹرک کے ساتھ ہی سکول میں ٹیچر کی پوسٹ دے دی گئی دوسال بعد آپ نے استعفیٰ دے کر مزید تعلیم کے لئے پشاور کا رخ کیا،پشاور میں گریجویشن کرنے کے بعدسول سیکرٹریٹ میں اسسٹنٹ بھرتی ہوئے ترقی کرکے سپرٹنڈنٹ سیکشن آفیسر اور ڈپٹی سیکرٹری بنے،چند سال محکمہ اوقاف کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر بھی رہے‘ 2008 میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے 2ستمبر 2022کو 74سال کی عمرپاکر راہی ملک عدم ہوئے‘پشاور میں غلام مصطفی تریچوی تھے۔ گاؤں والوں کیلئے مصطفی پشوری تھے۔مرحوم انسانی معاشرے میں بشری صفات اور خوبیوں کا مرقع تھے۔ان کا6فٹ سے کچھ اوپر قد،کشادہ پیشانی،ہنستا مسکراتا چہرہ ہرایک کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا میں 1971ء میں پشاور آیا تو مصطفی صاحب طالب علم تھے اپنے استاد پروفیسر ٹھاکرداس کی خوب تعریف کرتے تھے اور ساتھ ساتھ ملٹن،ورڈزورتھ اور کیٹس کی انگریزی نظمیں ٹھاکر داس کے انداز میں گاکر ہمیں محظوظ کرتے تھے،اس دور میں دو اور دوستوں کو ساتھ ملاکر انہوں نے پشاور میں طالب علموں کی مدد اور بے روزگاروں کو بیرون ملک روزگار دلانے کے لئے اتحاد چترال پاکستان کے نام سے تنظیم بنائی، خدا بخشے ان میں حاجی محمد سلیم2020ء میں فوت ہوئے،حاجی ظفرعلی شاہ2021میں انتقال کرگئے، حاجی مصطفی پشوری نے اس سال داربقا کا سفر اختیار کیا۔سماجی ترقی کے لئے آپ کا ذوق وشوق دیدنی تھا اس لئے سیاسی کارکن اور قومی نمائندے آپ کی رہنمائی کے طلبگار رہتے۔آپ انگریزی اور اردو میں درخواستیں،اسمبلی کے سوالات اور اخباری بیانات لکھ کر ان کے دستخطوں سے آگے پہنچادیتے وہ سب کے اعزازی سیکرٹری تھے اور ان کے ذہن رسا میں چترال اور پشاور میں مقیم چترالیوں کے مسائل پربے شمار تجاویز ہروقت گردش کررہی ہوتی تھیں۔وزیرباغ کے قریب چترالی قبرستان کیلئے آپ نے میراحمد بلبل اور حاجی عظیم کے ساتھ مل کر کام کیا تھا‘آج تینوں اس قبرستان میں آسودہ خاک ہیں‘آپ کی عادتیں وکھری ٹائپ کی تھیں،دنیاداری،مال وزر کی ہوس اور خوب سے خوب تر کی حرص آپ کو چھوکر نہیں گذری تھی۔ غصہ کا عنصر آپ کی فطرت میں نہیں تھا دوستوں اور ساتھیوں نے کبھی آپ کو غصے میں بڑبڑاتے نہیں دیکھا،آپ کو کسی کی بات یا حرکت پربہت زیادہ غصہ آتا تو مسکراکر ٹال دیتے 1970اور1980کے عشروں میں کمپیوٹر نہیں آیاتھا،سرکاری خط وکتابت میں غلطی ہوجاتی تو دوبارہ ٹائپ کرنا پڑتا تھا آپ کا اسلوب یہ تھا کہ ڈرافٹ میں غلطی کی نشاندہی کرنے کے بعد ٹائپسٹ سے مشورہ لے لیتے‘بیٹا اس کو دوبارہ ٹائپ کرنا پڑے گا بتاؤ تم کروگے یا میں کرلوں؟ٹائپسٹ کہتا سرکیوں شرمندہ کرتے ہو میں یہاں کس لئے بیٹھا ہوں،دوستوں کے حلقے میں اکثر یہ بات چھڑجاتی تھی کہ آپ کے والد صاحب چارویلو تھے آپ اپنے نام کے ساتھ چارویلو کیوں نہیں لکھتے؟مصطفی صاحب دوستوں سے پوچھتے کیا سیکشن آفیسر یاڈپٹی سیکرٹری کا بیٹا گھربیٹھے یہ نام اپنے نام کیساتھ لگاسکتاہے؟ہم کہتے نہیں،وہ ہلکی مسکراہٹ کیساتھ کہتے پھر جو عہدے نصف صدی پہلے ختم ہوئے کسی کی اولاد ان عہدوں کو کس طرح اپنے نام کاحصہ بناسکتی ہے؟ معاملات میں کھرے اور سچے تھے۔یہاں تک کہ دوستوں نے انہیں کسی بھی حال میں سچائی پر سمجھوتہ کرتے نہیں دیکھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی