امریکہ کی تائیوان کو تقریباً ایک ارب ڈالر کے جدید ہتھیار اور اوزار کی منظوری پر چین نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے اس معاہدے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر کرسکتا ہے۔امریکہ میں چین کے سفارت خانے نے ایک بیان میں اس پر جوابی اقدامات کی دھمکی دی اور کہا کہ چین اس صورتحال کے ردعمل میں ٹھوس اور ضروری اقدامات کرے گا۔ابھی امریکی کانگریس نے اس معاہدے کی منظوری نہیں دی ہے مگر قوی امکان ہے کہ یہ معاہدہ کانگریس سے منظور ہوجائے گا کیوں کہ اکثر ارکان اس کے حامی ہیں۔پچھلے مہینے امریکی ایوان نمئاندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورہ سے امریکہ چین تعلقات میں بھی کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ چین نے اس دورے کو اپنی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی اور ون چائنا پالیسی کے اصول کیلئے چیلنج قرار دیا تھا اور اس نے ردعمل میں تائیوان کے آس پاس بڑی فوجی مشقوں کا اعلان کیا۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی سفارتی، سیاسی اور فوجی بحران پر منتج ہوسکتی ہے۔ چین کہتا آیا ہے وہ مذاکرات کیلئے تیار ہے اور وہ پرامن طریقے سے اپنا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے مگر کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔چینی افواج تائیوان کی آزادی کی کسی بھی سازش کو کچلنے کی صلاحیت اور مصمم ارادہ رکھتی ہیں اور اسے روکنے کے لیے جنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گی۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کر دیا تو امریکہ اس کے دفاع کو آسکتا ہے جس سے چین امریکی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باعث ان کا تصادم دنیا کیلئے خطرناک ہوگا۔ بہرحال زیادہ امکان یہی ہے کہ چین اور امریکہ جنگ سے گریز کریں گے۔تائیوان نے ابھی تک چین سے اپنی آزادی کا رسمی اعلان نہیں کیا مگر وہ خود کو آزاد سمجھتا ہے۔واضح رہے 1949 میں چین میں خانہ جنگی ہوئی جس میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ما ؤزے تنگ نے جنگ جیت کر چین میں حکومت بنالی۔ کا منٹینگ نامی قوم پرست پارٹی کے رہنما چیانگ کائی شیک اور کارکن قریبی جزیرے تائیوان بھاگ گئے جہاں انہوں نے حکومت قائم کرلی۔ یہی کا مِنٹینگ اب تک تائیوان میں حکومت کرتی آئی ہے جسے ماضی میں بہت سے ممالک نے تسلیم کیا تھا مگر اب اسے تسلیم کرنے والے ممالک صرف 15 رہ گئی ہیں جن میں زیادہ تر لاطینی امریکہ اور جزائر غرب الہند کے ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان پہلا بحران 1954-1955میں دیکھنے میں آیا جب کوریا کی جنگ کے دوران چین نے اپنے بھگوڑے رہنما کی فوج پر حملہ کیا اور چین کو تائیوان پر قبضے سے روکنے کیلئے امریکہ نے تائیوان سے دفاع کے باہمی معاہدے پر دستخط کیے اور اس کے دفاع کیلئے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ بحران ٹل گیا مگر چین نے 1955 میں اپنا جوہری پروگرام شروع کردیا حتی کہ 1964میں جوہری تجربہ کرلیا۔دوسرا بحران 1958 میں آیا جب چین نے اپنی باغی افواج کو نکالنے اور قبضہ کرنے کیلئے کوئیموئے اور ماتسو جزائر پر بمباری شروع کردی تو امریکہ نے باغی افواج کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد جوہری خطرہ پھر بڑھنے لگا تو چین نے بمباری ختم کر دی۔ امریکہ اور چین معاہدہ ہوگیا۔ 1979 میں امریکہ نے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کر لیا۔ 1979 ہی میں امریکی کانگریس نے تائیوان ریلیشنز ایکٹ پاس کیا جس کے تحت امریکہ تائیوان کا دفاع کرنے کا وعدہ کیے ہوئے ہے۔ اس قانون کی وجہ سے چین تائیوان کے الحاق اور اور تائیوان آزادی کے یک طرفہ اعلان سے رکے ہوئے ہیں۔چین امریکہ تعلقات میں تیسرا بحران 1995 میں آیا جب تب تائیوان کے صدر لی ٹینگ ہوئی امریکہ کے دورے پر گئے۔ چین نے اسے امریکہ چین معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا جس کے تحت امریکہ صرف چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھنے اور تائیوان سے نہ رکھنے کا پابند ہے۔امریکہ چین تعلقات مفاہمت اور تعمیری ربط کے بجائے شکوک، خدشات، حسد، مقابلے اور ردعمل کی حرکیات کا شکار ہیں۔ امریکہ چین تعلقات کا بہترین ماڈل وہ ہے جو احترام، مفاہمت، تعاون پر مبنی ہو۔