سب کی نگاہیں سوئے آسمان گول گول گھوم رہی تھیں۔کیونکہ سرِ آسمان نیلے کینوس پر ایک جیتی جاگتی کٹی ہوئی پتنگ کو آزاد چھوڑدیا گیا تھا۔ موسم سہانا اور ہوا تیزتھی۔ سو یہ موسم کی ترنگ پتنگ اڑانے کے لئے انتہائی ساز گار ہوتی ہے۔اس وجہ سے کہ بغیر کوشش کے ہاتھ میں تھامی ہوئی ڈور والی پتنگ دور دور تک اڑتی پھرتی ہے۔مگر یہ پتنگ تو کٹی ہوئی تھی اور سروں پر ڈول رہی تھی فضا میں تیر رہی تھی۔ ہر کس و ناکس کی خواہش تھی کہ یہ میرے ہاتھ لگے‘اس کا مانجھا کبھی ایک گھر کی منڈھیر سے سرک کر دوسرے گھر کی چاردیواری کے اوپر سے آخری اینٹوں سے رگڑ کھاتا نیچے کچی دیوار پر آ رہتا‘بچے تو خوب دوڑ دھوپ میں مصروف تھے۔مگر اس بستی میں جو بڑے تھے ان کی خواہش بھی تھی کہ بچوں سے زیادہ اپنا لمباہاتھ اوپر کر کے اس کٹی پتنگ کی ڈور کو قابو میں کر لیں‘پھران بڑوں کے پاس ایک آپشن او ربھی تو تھا کہ اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو یہ بر موقع بچوں کو اپنے غصے کے اظہار سے دبا لیں اور ان سے کٹی ہوئی پتنگ چھین لیں‘مگر سوئے اتفاق وہ پتنگ لہراتی ہوئی جاکر ایک اونچے درخت کی شاخوں میں الجھ گئی۔بچے تو بچے ہیں دس روپے کی کٹی پھٹی بے رنگ و رونق گڈی کے پیچھے اپنی انمول جان کی پروا نہیں کرتے۔شام کا وقت تھا ابھی سورج ڈھلنے میں گھنٹہ باقی تھا۔ وہ پتنگ تو اس کے ہاتھ میں نہ آئی مگر اس نے جا کر باپ سے پچاس روپے مانگے مگر بچوں کی اپنی ایک نفسیات ہے۔باپ کو معلوم ہوگیا کہ یہ ضرور جا کر پتنگ خریدے گا۔ اس کو رقم نہ ملی تو وہ ماموں کے پاس گیا‘ ماموں تو ماموں ہوتا ہے‘ ذرا جیب کی طرف اپنے جسم پر کھجلی بھی کرے تو بچہ سمجھتا ہے شاید مجھے کچھ دینے کیلئے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے‘ماموں نے اس کو پچاس دے دیئے۔باپ مزدوری سے آیا تھا سخت بھوک کے عالم میں کھانے میں مصروف تھا۔بچے نے پچاس میں سے چالیس کی ڈور لی اور دس روپے کی پتنگ لی اور گلی میں گھر کے باہر پتنگ کو ہوا کے دوش پر رخصت کرنے کیلئے پر تولنے لگا۔اتفاق یہ کہ اس کشمکش میں اس کی پتنگ قریب کے بجلی کے کھمبے کی اوپری تاروں سے جا الجھی۔بچے تو کیا اس بستی کے بڑوں کو بھی یہ نہیں معلوم کہ بجلی کی کس تار میں کتنا کرنٹ ہے‘پھر یہ تاریں ہوتی کیا ہیں۔ وہ تو بس سمجھتے ہیں کہ جیسے یہ رسیاں سی اوپر نیچے کر کے تین کی تعداد میں گلی کوچوں میں سروں کے اوپرکھینچ دی گئی ہیں‘اس کی پتنگ جب اس کھمبے کی تاروں میں الجھی تو اس نے ذرا دیر نہ لگائی اور چیتے کی سی تیزی کیساتھ اس کھمبے کے لوہے کے قینچی نما رخنوں کو سیڑھی بنا کر اوپر اپنی پتنگ تک پہنچ گیا‘حالانکہ زیادہ تر کھمبوں کو بدل کر سیمنٹ کے ہموار کھمبوں میں تبدیل کرد یا گیا ہے تاکہ ان پرکوئی بچہ پاؤں پھنسا کر چڑھ نہ سکے۔ مگر وہ چڑھا اور پتنگ کو کیا چھو پاتا الٹا بجلی نے اس کو چُھو لیا‘ایک سیکنڈ کا وقفہ تھا‘ اپنے جسم کے بوجھ کی وجہ سے وہ زمین پر آ رہا مگر اس کی روح اوپر سے نیچے زمین پر آتے ہوئے راستے ہی میں آسمان پر پرواز کرچکی تھی‘ کہنے والوں نے کہا اس کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت نہیں‘یہ دنیا میں نہیں رہا۔ مگر جس کا کوئی مر جائے وہ اپنی بھرپور تسلی کے بعد ہی اس کو مردہ سمجھتا ہے۔کیونکہ اس کی وفات کی اور سب کو سمجھ آتی ہے مگر لواحقین کو تو ہفتوں گذر جانے کے بعد بھی اپنے پیارے کی مرگ کا یقین نہیں آتا‘مجھے معلوم ہوا تو میں صدمہ سے نڈھال تھا‘ جائے حادثہ کو دیکھنے پہنچا تو ایک اور صدمہ کا سامنا ہوا۔ وہ یہ کہ وہی پتنگ جس کے پیچھے وہ اوپر چڑھا تھا جوں کی تو ں وہاں اٹکی ہوئی تھی‘مگر جب رات نو بجے اس کی تدفین ہوئی اس کے دوسرے روز بھی وہی پتنگ وہاں لٹکی ہوئی تھی‘ جیسے کسی درخت میں کوئی کٹی ہوئی پتنگ آکر الجھ جائے‘ بجلی کے کھمبے پر کٹی ہوئی اس پتنگ کاوجود ایک خوف کا علامت بن چکا ہے‘جب تک یہ پتنگ یہاں موجود رہے گی آنے جانے والے اور بچوں کیلئے موت کے خوف کا نشان بنی رہے گی‘وہ پتنگ اب بھی وہاں موجودہے مگر نہیں تو حمزہ نہیں۔ جو اپنے والدین کاایک ہی بیٹا تھا۔اب اس کے والدین کادکھ کوئی کیاسمجھے جس پر گزرتی ہے اسی پر گزرتی ہے ”کس کو بتلائیں کہ آشوبِ محبت کیا ہے۔جس پہ گذری ہو وہی حال ہمارا جانے“ کتنے ہی بچے ہیں جو اسی طرح پتنگ بازی میں چھت سے گر کر جان گنوا بیٹھے ہیں۔