ریلوے کی نشاۃ ثانیہ کا انتظار

ریلوے کی سواری غریب اور عام آدمی کی سواری ہے اسی لئے تو ریلوے کی طرف آج تک  خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور  بڑی بڑی گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں سفر کرنے  والے ریل کی سواری کو سستی اور معیاری کرنے میں کیوں دلچسپی لیں۔1947  میں قیام پاکستان کے وقت ہمیں ایک اچھا خاصا بھلا ریلوے کا انفراسٹرکچر فرنگیوں کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا  اسے مزید بہتر کرنا تو کجا ہم نے اسے تباہ کر ڈالا۔ فرنگیوں نے راولپنڈی سے مانزی تک جو کہ جنوبی وزیرستان کے دہانے پر واقع ہے مال گاڑیوں  کے لئے ایک ریلوے ٹریک بچھایا تھا جو کوہاٹ بنوں لکی اور ٹانک سے گزرتا تھا جہاں ریلوے سٹیشن بھی بناے گئے تھے اگرہم نے ان کی حفاظت کی ہوتی اور پیزو سے ڈیرہ اسماعیل خان تک ایک ٹریک بچھا دیا ہوتا تو آج پشاور سے جنوبی اضلاع تک مال گاڑیوں کے علاوہ مسافر ٹرینوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہوتا۔ اسی طرح مانزی سے براستہ تناہی جنوبی وزیرستان پشاور کو کوئٹہ کے ساتھ ریلوے کے ذریعے منسلک کیا جا سکتا تھا۔ کچھ اسی قسم کا رویہ ہم نے اس ریلوے ٹریک کے ساتھ بھی برتا جو فرنگی ہم کو درست حالت میں پشاور سے تخت بائی تک دے گئے تھے۔اسے بہ آسانی سوات تک بڑھایا جا سکتا تھا اسی قسم کا حشرہم نے اس ریلوے ٹریک کے ساتھ کیا جو فرنگی حویلیاں تک بچھا گئے تھے کیا ہم اسے ایبٹ آباد تک بڑھا نہیں سکتے تھے۔  اگر ریلوے کی مال گاڑیاں تواتر سے چلتیں تو تاجر اپنا مال ان کے ذریعے بجھواتے چونکہ ریلوے کے freight چاجز کم ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کو اشیا ئے خوردنی سستی پڑتیں۔  عام آدمی کو بھی ریلوے کی شکل میں ایک سستی اور محفوظ سواری میسر ہوتی۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے ارباب بست و کشاد بھی ریلوے کے ذریعے جہاں جہاں ریلوے جا سکتی اس میں بیٹھ کر سرکاری دوروں پر جاتے ذرا خیال کیجئے ایسا کرنے سے کس قدر توانائی پرہونے والا خرچہ بچایا جا سکتا تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں ان کے حکمران بھلے ان کا تعلق کسی بھی ریاستی ادارے سے کیوں نہ ہو وہ ریلوے میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے پھر ریلوے کا عملہ ہر وقت محتاط رہتا ہے اور اس کی کارکردگی کا معیار بلند رہتا ہے۔ اب ذرا عالمی واقعات پر نظر ڈالتے ہیں،ہٹلر جب دوسری جنگ عظیم میں روس  پر حملہ کرنے کیلئے اپنے پر تول رہا تھا تو اس کے کئی جرنیلوں نے اسے ایسا نہ کر ے کا مشورہ دیا تھا اور ایسا نہ کرنے کی ایک  وجہ اسے یہ بتائی گئی تھی کہ سردیاں آنے والی ہیں جو جرمن فوجیوں کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہیں۔ انہوں نے ہٹلر کو نپولین کی روس پر سردیوں میں حملے اور شکست کی مثال بھی پیش کی تھی پرہٹلر جو کہ ایک سخت شکی مزاج انسان تھا یہ شک کرنے لگا کہ اس کے جرنیلوں کو شاید اس کے دشمنوں نے خرید لیا ہے اور وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اسے روس پر حملہ کرنے سے روک رہے ہیں۔ہٹلر نے روس کے خلاف جنگی محاذ کھول کر اپنی شکست اور پھر موت کو دعوت دی اس سے پیشتر فرانس کا رہنما نپولین  بھی اسی قسم کی لغزش کر کے روس کے محاذ پر شکست فاش کھا چکا تھا۔جنگی ماہرین کے خیال میں اگر ہٹلر جرمنی کے نہایت ہی قابل جرنیل رومیل کا ساتھ نہ گنواتا اور اس کو قتل کروانے کی بجائے اس کے مشوروں پر چلتا تو دوسری جنگ عظیم میں اسے اتنی زیادہ ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔چند روز قبل سوویت یونین کے ایک سابق سربراہ گورباچوف  چل بسے۔ کئی روسیوں کی نظر میں وہ ایک نہایت کمزور رہنما تھا اور اس کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کئی ناقدین تو اس پر اور الزامات بھی لگاتے ہیں، بہر حال جتنے منہ اتنی باتیں ایک بات کے بارے میں البتہ دو آرا ء نہیں ہو سکتیں اور وہ یہ ہے کہ سابقہ روسی لیڈروں کی طرح وہ ایک مضبوط لیڈر نہ تھا اور جب قوم پرست روسیوں کو پیوٹن کی شکل میں ایک مضبوط دل گردے کا لیڈر ملا تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔