سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے لئے جس انداز میں مخیر خواتین و حضرات نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور غیرسرکاری تنظیمیں‘ سول سوسائٹی کے کارکن اور شہری سیلاب زدگان کی امداد کے لئے سامنے آئے ہیں‘ یہ جوش و جذبہ لائق داد ہے کہ ’انسان دوستی‘ میں ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے تاہم ضرورت زیادہ بڑی ہے بالخصوص سیلاب سے متاثرہ دیہی علاقوں میں زیادہ نقصانات ہوئے ہیں اور اب اِن نقصانات کے ازالے کی آغاز تعلیم اور انسانی ترقی کے ذریعے ممکن ہے۔ دیہی علاقوں میں زراعت پر منحصر معیشت و معاشرت طویل عرصے سے نظر اندازی کا شکار رہی ہے جبکہ قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے اور اِس سلسلے میں ہم آہنگی کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ سیلاب کی وجہ سے جس بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے اور اِس نقل مکانی سے جو سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ اُس کے مثبت نتائج معاشرے کے کمزور طبقات بالخصوص خواتین کے حقوق کی ادائیگی کی صورت ظاہر ہوں گے۔مون سون بارشوں سے سیلاب نے صرف اُن علاقوں کو متاثر نہیں کیا جو دریاؤں کے قکناروں پر آباد ہیں بلکہ اِس سیلاب سے پورے ملک کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب سے پاکستان کی معیشت کو مجموعی طور پر 10 سے ساڑھے بارہ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ رواں مالی سال (دوہزاربائیس تئیس) میں مہنگائی (افراط زر) چوبیس سے ستائیس فیصد کے درمیان رہا جس میں تیس فیصد اضافے کا امکان ہے۔ وزارت خزانہ‘ وزارت منصوبہ بندی‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ ایف بی آر‘ پی آئی ڈی ای اور دیگر کے نمائندوں پر مشتمل اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنے جائزوں میں کہا ہے اور اُن سبھی کا خلاصہ یہ ہے کہ سیلاب سے غربت اور بے روزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے کیونکہ سیلاب سے قبل پاکستان میں غربت کا تناسب 21.9 (قریب بائیس فیصد) تھا جو بڑھ کر چھتیس فیصد تک پہنچ گیا ہے یعنی اب پاکستان کے ہر 100 میں سے 36 افراد غربت کا شکار ہیں! پاکستان کے 118 اضلاع کو ”شدید سیلاب“ کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں قریب 37فیصد آبادی اب غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران بے روزگاری کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ سیلاب سے قبل بے روزگاری کی شرح چھ فیصد تھی۔ رواں مالی سال (دوہزاربائیس تئیس) میں ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو پانچ فیصد تھی جو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کم ہو کر دو فیصد رہ گئی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اعدادوشمار جاری کئے ہیں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال (دوہزاربائیس تئیس) میں قومی ترقی کی شرح چار اعشاریہ پانچ فیصد سے کم ہو کر دو فیصد رہے گی چونکہ سیلاب سے زرعی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے اِس لئے غذائی اجناس کی قیمتیں میں ساڑھے پینتالیس فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی پہلے جو سودا سلف ایک ہزار میں آتا تھا اب اُس کے لئے کم و بیش پندرہ سو روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ زرعی اور مال مویشیوں کے مجموعی نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 500 ارب روپے لگایا گیا ہے جو تاریخ کا بلند ترین نقصان ہے اور یہی وجہ ہے کہ زرعی معیشت و معاشرت کی بحالی میں ابھی کافی وقت اور مالی وسائل کے ذریعے سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ رواں مالی سال کے آغاز (سیلاب سے قبل) ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو میں اضافے کا تخمینہ تین فیصد لگایا گیا تھا لیکن سیلاب کے بعد ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو ’دو فیصد‘ کے آس پاس منڈلا رہی ہے اور پاکستان کو معاشی محاذ پر شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سٹیٹ بینک پاکستان میں خلائی تحقیق کے ادارے ’سپارکو‘ کے تکنیکی تعاون اور سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے زرعی شعبے کو ہوئے نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ’گوگل‘ نے بھی حکومت کو زرعی اور دیگر شعبوں میں ہونے والے نقصانات کا قریب قریب درست تخمینہ جات لگانے کے لئے تکنیکی وسائل سے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2010ء میں آئے سیلاب سے ملک کے 78 اضلاع متاثر ہوئے تھے جبکہ حالیہ سیلاب کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے 118 ایسے اضلاع کو نقصان پہنچایا ہے جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔ پاکستان کی جانب سے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں تخمینہ جات مرتب کرنے کا ایک مقصد دوست ممالک اور عطیہ دہندگان کی توجہات حاصل کرنا ہے لیکن اگر خلائی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر اور اِن تصاویر سے زرعی و دیگر شعبوں کو ہوئے نقصانات کے بارے تفصیلات (تخمینہ جات) کو مستقبل میں ترقیاتی عمل کی منصوبہ بندی کے علاوہ انسانی آباد کاری کو منظم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ سیلاب سے ہوئے نقصانات کے اَزالے اور ”ترقیاتی منصوبہ بندی“ کے لئے زیادہ مفید و پائیدار رہے گا۔