موسم کی اس تازہ پیش گوئی کے مطابق آئندہ چند روزمیں ملک کے بیشتر علاقوں میں پھر سے بارشیں ہوں گی۔جو دو چار روز جاری رہیں گی۔کہیں ہلکی پھلکی اور کہیں موسلا دھار بارش۔اب ہم سوئے آسمان دیکھنے لگے ہیں کہ کب کیا ہو، بارش اور طوفان درخت اکھاڑ کر پھینک دے۔ امداد پہ امداد آ رہی ہے مگر تباہی اتنی بڑی ہے کہ اس سے دس گنا امداد اور بھی آجائے تو تباہ حال شہریوں کی آبادکاری جیسا کہ حق ہے نہیں ہو سکے گی۔ پہلے تو رات کومائیں اپنے بچوں کو جلدی سلانے کی غرض سے کسی نہ کسی بلا کا فرضی نام لے کر ڈراتی تھیں کہ سو جاؤ ورنہ بلا آ جائے گی۔ بچے سو بھی جاتے ہیں۔ مگر کچھ دنوں سے یہ عالم ہے کہ اب تو بچوں کو سیلاب کا نام لے کر ڈرانا عبث کی ایک کوشش ہے۔ کیونکہ الٹا بچے تو اب سیلاب کا نام سنتے ہی گہری نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور جیتے جاگتے ڈرنے لگتے ہیں۔
سیلاب نے اس قدر اپنا اعتبار کھو دیا ہے کہ رات کو صحیح سلامت میٹھی نیند کے مزے لینے کی خاطر اور خوبصورت خواب دیکھنے کے لئے جب سوئے تو اچانک گاؤں میں افراتفری کی آوازوں کے خوف نے بچوں تو کیا بڑوں کو بھی جگا دیا۔بھاگو دوڑو یہ کرو وہ کرو مویشی کھولو سامان اٹھاؤ مگر کہاں اس سیلاب کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے۔”رات کیا سوئے کہ ساری عمر کی نیند اُڑ گئی۔خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا“۔کیونکہ رات کے اندھیرے میں پانی کامقابلہ کون کرسکتا ہے۔کہیں کسی کے جہیز کا سامان ساتھ لے گیا کسی کے کھیت کھلیان میں نکلا ہوا اناج کاڈھیر غارت کر گیا۔ ”لوٹنے والے پہ ہے منحصر سب دارو مدار۔لٹنے والے کا ارادہ نہیں دیکھا جاتا“ (ہمابیگ)۔کسی کابچہ نہیں تو کسی کا بوڑھا باپ سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا۔ اب دور دراز کے کچے کے علاقے میں ان کے پاس نہ موبائل نہ خبریں نہ کسی طور ان کو کوئی اطلاع کہ سیلاب آنے والا ہے۔”جو ڈوبنا ہو تو اتنے سکون سے ڈوبو۔ کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے“ یہ لوگ تواتنے ہی سکون سے ڈوب کر آگے دریا میں جا کر مل گئے جہاں یہ سیلاب جا رہا تھا پھر یہ بھی کہ ”جن کی قسمت میں ہو جلنا وہ جلا کرتے ہیں“۔ پانی کی ٹھنڈی آگ میں کتنی بستیاں جل گئیں۔جہاں کبھی گاؤں ہوا کرتے تھے چہل پہل تھی اب وہا ں دور دور تک پانی ہے جیسے بحرِ اوقیانوس کی وسعت ہو۔
جب بارش ہو تو کھلی فضا میں سوئے شہری پانی کی پہلی پڑنے والی بوند کے ساتھ ہی آنکھ کھولتے ہیں اور برآمدے میں چارپائیاں ڈال کر آسمان کے نیچے سے ہٹ جاتے ہیں۔مگر یہ تو وہ پانی ہے جو چارپائیوں کے تلے اپنی سطح بلند کرتا رہا اور جب سونے والوں کے جسموں کے ساتھ ٹچ ہوا تو ہڑبڑا کر ان کی آنکھ کھلی اور وہ بھاگم دوڑی میں مصروف ہوگئے۔ صحراؤں کے مکینوں کو تو جانوروں کے لئے کیا خو د اپنے پینے کاپانی بھی تو میسر نہ تھا۔ مگر اب صحراؤں میں کشتیاں چل رہی ہیں۔ جہاں ڈھور ڈنگر مر گئے اب وہاں کھیت اور بیل بوٹے سبزہ اُبھر آیا ہے‘مگر اب تو بارش کی اتنی اطلاعات ہیں کہ ا ن پیش گوئیوں نے ناک میں دم کر دیا ہے۔بارش بھی عجیب کسی کو ضرورت کسی کو الرجی۔اب ٹیسٹ کرکٹ میچ کے دوران میں ٹیسٹ میچ کو برابر ہوجانے کے لئے ہارنے کی توقع کرنے والی ٹیم دعا کرتی ہے بارش ہو جائے۔پھربادل گڑگڑائیں تو جیت کی توقع کرنے والی ٹیم کہے کاش بارش نہ ہو۔
بارش تو زمین کی ہریالی ہے اور اس سے ہی زندگی وابستہ ہے تاہم جتنے مسائل سامنے آرہے ہیں وہ بارش کی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزور منصوبہ بندی اوربغیر کسی پلاننگ کے آبادی کاری میں اضافہ کرنا ہے اگر ہم دریاؤں کے راستوں کو کھلا چھوڑیں ان پر تجاوزات قائم نہ کریں اور دریاؤں کے کناروں پر مضبوط پشتے بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ زیادہ پانی کا مطلب زیادہ آبادی اور زرخیزی ہو نا کہ تباہی اور بے سروسامانی۔