یورپی یونین نے کہاہے کہ سربیا اور کوسوو نے اپنی سرحدوں کے آرپار دونوں ممالک کے پار شہریوں کی نقل و حرکت سے متعلق تنازعہ طے کر لیا ہے۔یہ اطلاع یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کی جانب سے کی گئی ایک ٹویٹ میں دی گئی ہے واضح رہے کہ کوسوو اور سربیا کے درمیان کچھ عرصے سے دوطرفہ آمدورفت کے حوالے سے کشیدگی پیداہوگئی تھی جس پر یورپی یونین نے مداخلت کرتے ہوئے ان دونوں پڑوسی ممالک کی غلط فہمیاں اور اختلافات ختم کرتے ہوئے دوطرفہ آمد ورفت اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کادیرینہ مسئلہ حل کردیا ہے۔یورپی یونین کے مذاکرات اور مداخلت کے نتیجے میں سربیا جورقبے اور آبادی میں کوسوو سے کئی گنابڑا ہے اور جس نے تاحال کوسوو کی آزادی کو تسلیم نہیں کیاہے‘ نے کوسوو کے آئی ڈی ہولڈرز کیلئے داخلے اور خروج سے متعلق دستاویزات کی پابندی کو ختم کرنے پر رضامندی ظاہرکردی ہے جبکہ جواب میں کوسوو نے بھی سربیا کے آئی ڈی ہولڈرز کے لئے ان شرائط کو متعارف نہ کرانے پر اتفاق کیاہے البتہ دونوں ممالک شمالی کوسوو میں جاری سربیائی کار نمبر پلیٹوں کے متنازعہ استعمال پر ابھی تک متفق نہیں ہوسکے ہیں‘یاد رہے کہ کوسوو جو کہ مسلم اکثریت کی ایک البانوی نژاد بالقان ریاست ہے‘نے2008 ء میں سربیا سے آزادی کا اعلان کیاتھا جس نے اس اقدام کو ابھی تک تسلیم نہیں کیاہے اوریہ اب بھی کوسوو کو اپنے علاقے کا حصہ سمجھتاہے حالانکہ زمینی حقائق اس کے اس موقف سے قطعاً مختلف ہیں‘کوسوو کی آزادی کے اعلان سے لیکر اب تک البانوی حکومت اور سربوں اقلیت کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ چلے آرہے ہیں حتیٰ کہ پچھلے مہینے کے آخر میں یہ کشیدگی سول نافرمانی میں تبدیل ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں سربیا اور کوسوو کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی نے جنم لیناشروع کردیاتھا جس پر یورپی یونین کو مداخلت کرکے ان دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا پڑاہے‘سربیااور کوسوو کے درمیان اس حالیہ کشیدگی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ دراصل کوسوو کی حکومت ایک نیا اقدام متعارف کروانا چاہتی ہے جس کے تحت نسلی سربوں کو کوسوو سے جاری کردہ کار لائسنس پلیٹیں استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی اور سربیا کے راستے ملک میں داخل ہونے والے لوگوں کیلئے خصوصی داخلے کے دستاویزات بھی حاصل کرنا ہوں گی‘کوسوو کے شمال میں مقیم ان علاقوں کے تقریباً پچاس ہزار لوگ کوسوو کی نمبر پلیٹس رکھنے کی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ یہ لوگ سرب النسل ہونے کی وجہ سے کوسوو کی آزادی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔اس مخالفت میں کوسوو کے شمالی علاقے کے سرب جن کی سرحد سربیا سے ملتی ہے نہ صرف پیش پیش ہیں بلکہ ان کی جانب سے سڑکوں پر رکاوٹیں بھی کھڑی کی گئیں اور مبینہ طور پر احتجاج کرنیوالوں کی طرف سے کوسوو کی سکیورٹی فورسز پرگولیاں بھی چلائی گئیں جس سے حالات مزید کشیدہ ہوگئے تھے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں یورپی یونین کو تنازعہ بڑھنے کے خطرے کے پیش نظر مداخلت کرنا پڑی ہے۔دراصل روس یوکرین جنگ کے تناظر میں یورپی یونین اور خاص کر نیٹو یورپ میں کسی اور تنازعہ کوبرداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اس لئے ان کی جانب سے سربیااور کوسوو کے تنازعے کو بڑھنے سے پہلے ہی روک دیاگیا ہے‘یورپی یونین کی مداخلت پر اب کوسوو کی حکومت نے نئے قوانین کا نفاذ ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دیاہے‘کوسوو کے وزیر اعظم البن کرتی کی طرف سے”ضمانتیں موصول ہونے“ کے بعدیورپی یونین کی سہولت کاری سے ہونے والی دوطرفہ بات چیت کے نتیجے میں فریقین شناختی دستاویزات پر ایک معاہدہ کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔اس اتفاق رائے کے تحت اب کوسووکے سرب شہریوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام شہری بھی اپنے شناختی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے کوسوو اور سربیا کے درمیان آزادانہ سفر کر سکیں گے تاہم کار کی نمبر پلیٹس کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے جس پر اگلے مرحلے میں بات چیت کی جائے گی۔کوسوو کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوسوو بلقان میں ایک چھوٹاساخشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کی سرحدیں البانیہ، شمالی مقدونیہ، مونٹی نیگرو اور سربیا سے ملتی ہیں بہت سے سرب اسے اپنی قوم کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں حالانکہ کوسوو میں رہنے والے 1.8 ملین افراد میں سے 92فیصد البانوی اور صرف 6فیصد سربیائی ہیں‘1990 ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے تک کوسوو یوگوسلاویہ کاایک نیم خود مختار صوبہ تھا البتہ نوے کی دہائی کے آغاز میں جب سوویت یونین کا انہدام شروع ہوا تو اس کے اثرات جلد ہی مشرقی یورپ اور بلقان کے سوویت تسلط کے زیر اثر ریاستوں میں بھی آزادی کی تحریکوں کی شکل میں پہنچ گئے تھے یہی وہ دور تھا جب اس وقت کی یورپ کی سب سے بڑی مملکت یوگوسلایہ کے ٹوٹنے اور اس کے حصے بخرے ہونے کاآغاز ہوا‘نیٹو کی مسلح مداخلت سے سربیا کی افواج بوسنیاا ور کوسوو سے واپس تو چلی گئی تھیں لیکن کوسوو کے بہت سے البانیوں اور سربوں کے مطابق یہ تنازع بظاہر اب بھی حل طلب ہے جس کے مظاہر وقتاًفوقتاًاب بھی مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں جن کی تازہ مثال دوطرفہ آمدورفت کے حوالے سے شناختی دستاویزات کے ایشو کاتنازعے کی صورت میں سامنے آنا ہے۔