سیلاب متاثرین کی بحالی

سیلاب متاثرین کیلئے اچھی خاصی رقم اکھٹی کی جا رہی ہے اور مختلف قسم کا روزمرہ کے استعمال کا سامان بھی جمع ہو رہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی تقسیم دیانتداری سے کی جائے اور یہ صرف حقداروں کوہی ملے۔یہ بات ہم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ اس ضمن میں ماضی کے احوال تسلی بخش نہیں ہیں۔اس جملہ معترضہ کے بعد آئیے ذرا تاریخ کی کتابوں کے اوراق میں درج کچھ اہم اور دلچسپ واقعات کو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شئیر کریں۔عام تاثر یہ ہے کہ راجہ ٹوڈر مل نے اکبر اعظم کے دور حکومت میں ہندوستان میں مالیاتی نظام متعارف کروایا حالانکہ اس نظام کا لانے والا شیر شاہ سوری تھا۔ آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا کے مطابق ہندوستان کے کسی بھی حکمران نے اس ملک کے لئے اتنا کچھ نہیں کیا کہ جو شیر شاہ سوری نے صرف پانچ سالوں میں کیا۔شیر شاہ سوری کے جاری کردہ مالیاتی نظام اور اصلاحات کے متعلق ہندو مورخین ٹوڈر مل کو ان کا تیار کرنے والا کہتے ہیں چونکہ اس نظام کا شیر شاہ سوری کے عہد میں نافذہونے میں کوئی شک یا کلام نہیں۔اس لئے اپنی اس بات کو قابل یقین بنانے کی خاطر وہ ٹوڈر مل کو شیر شاہ کا وزیر بھی لکھتے ہیں جو غلط ہے۔

 دنیا اس وقت ایک مرتبہ پھر ہلچل کا شکار ہے بالکل اسی طرح کہ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد وہ انتشار کا شکار ہو گئی تھی اور جس کا انجام کار دوسری جنگ عظیم کی شکل میں نمو دار ہوا تھا یہ درست ہے کہ اقوام متحدہ سے جو توقعات تشکیل دینے والے ممالک نے وابستہ کر رکھی تھیں وہ سو فیصد تک تو شاید پوری نہ ہوئی ہوں۔پر یہ حقیقت ہے کہ لیگ آف نیشنز کے مقابلے میں اس کی کارکردگی بدرجہا بہتر رہی ہے اور کئی مواقعوں پر اس کی بالواسطہ یا بلواسطہ مداخلت سے نہ صرف تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ ٹلا ہے بلکہ اس نے قدرتی آفات کے شکار ممالک کی بروقت مالی اور طبی امداد کر کے ان کے شکار باسیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بھی بچایاہے۔  جب تک عالمی میدان میں سوویت یونین اور امریکہ مقابل گروپوں کی قیادت کر رہے تھے اس وقت طاقت کا توازن دو گروپوں میں تھا یعنی وارسا پیکٹ اور نیٹو میں شامل ممالک کے درمیان۔ پر جب سے چین دنیا کے نقشے پر ایک زبردست عالمی قوت بن کر اُبھراہے اور روس بھی اس کی پشت پر کھڑا ہوا ہے تو اس وقت سے کمیونسٹ بلاک دنیا میں اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ ماضی میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

 امریکہ اب ایک نہیں دو دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ موجودہ چینی اور روسی قیادتوں نے بعد از خرابی بسیار یہ محسوس کر لیا ہے کہ وہ تن تنہا امریکہ کا کسی بھی زندگی کے شعبے میں مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ یک جان دو قالب ہو کر وہ اسے زندگی کے ہر میدان میں نیچا دکھلا سکتے ہیں۔ امریکن سی آئی اے کو امریکی تھنک ٹینک نے اب یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ ہر طریقہ استعمال کر کے ان دو ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کے اتحاد میں دراڑ پیدا کرے۔ اب یہ چینی اور روسی قیادت کا امتحان ہو گا کہ وہ کیسے امریکن سی آئی اے کی اس نئی چال کو ناکام بناتے ہیں۔ قرائن و شواہد سے تو پتہ چلتا ھے کہ روس اور چین کے موجودہ اتحاد کو جو دوام مل رہا ہے اس کا کریڈٹ چین کو جاتا ہے کیونکہ روس کا حکمران پیوٹن نہ صرف شعلہ بیان ہے بلکہ وہ اپنی انتہا پسندی کیلئے بھی مشہور ہے اس کے مقابلے میں چین کی قیادت اس کے صدر کی ہدایت کے مطابق ہر معاملے میں نہایت سوچ بچار کے بعد پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی ہے اور وہ پیوٹن کی طرح جذباتیت کی عینک لگا کر عجلت میں فیصلے نہیں کرتی۔