پاکستان دنیا کا واحد ایسا ملک قرار دیا گیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دنیا میں سب سے پہلے اور بھیانک شکل و صورت میں ظاہر ہوئے ہیں جبکہ یہ بھی غیرمتوقع اور بڑے پیمانے پر مطالعے کا موضوع ہے‘ جس پر کئی ممالک میں تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔ رواں برس پاکستان نے بیک وقت ”5 موسمیاتی آفات“ کا مشاہدہ کیا ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں ایک ساتھ رونما ہوئی ہیں۔ ان میں وسطی سندھ اور بلوچستان میں طوفانی بارشیں‘ بلوچستان کے کوہئ سلیمان پہاڑی سلسلے میں لگی آگ اور کوہئ سلیمان سے جنوبی پنجاب اور زیریں سندھ تک تیز سیلاب جو زیادہ تر کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر اور دیگر شہری مراکز تک پھیل گیا‘ بالائی سندھ طاس میں برفانی طوفان‘ جس کے نتیجے میں زیریں علاقوں میں سیلاب آیا اور دریائے کابل پر نوشہرہ کے مقام پر آسمانی بادل پھٹنے اور کالام بحرین میں برفانی تودے پگھلنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اِس سے قبل کبھی بھی متواتر نہیں رہے۔
دریائے کابل اور دریائے سندھ میں سیلاب کی موجودہ صورتحال مل کر سندھ کے میدانی علاقوں کو بہا لے گئی۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کم از کم سال 1918ء کے بعد سے‘ جب موسمیاتی ڈیٹا ریکارڈ ہونا شروع ہوا۔ اگرچہ ان یہ غیرمتوقع موسمیاتی واقعات تباہ کن ثابت ہوئے لیکن رب تعالیٰ کا فضل یہ رہا کہ دیگر دریاؤں میں زیادہ تر سیلاب نہیں آئے ہیں۔ منگلا اور تربیلا ڈیم ابھی بھی بھرے جا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں بارشیں کم بھی ہوئی ہیں جس سے امید ہے کہ دریائے سندھ میں گزشتہ برسوں کی طرح اونچے درجے کا سیلاب نہیں آیا۔ پاکستان میں پہاڑی ندی نالوں اور دریاؤں کے راستے پر یا ان کے کناروں کے بہت قریب ہوٹل اور دیگر تعمیراتی ڈھانچے بنائے جاتے ہیں جو بپھرے ہوئے پانی کے قہر میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ تعمیراتی ملبہ پانی کے بہاؤ کو زیادہ تباہی کا باعث بناتا ہے کیونکہ کثیرالمنزلہ تعمیرات گتے کے ڈبوں کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر ہر طرف تعمیرات سے ٹکراتی ہیں اور یوں پانی وسیع علاقے میں تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔
سیلاب کے ساتھ لکڑی‘ گاڑھا اور پتھر سیلابی طوفان کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ اِس قسم کے پانی کے دباؤ کی وجہ سے ڈیم اور ہیڈ ورکس ٹوٹ گئے۔ پل اور سڑکیں بہہ کر زیر آب آ گئیں۔ سندھ‘ جو سیلاب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے‘ وہاں پانی نے پورے کے پورے اضلاع میں جھل تھل ایک کر رکھا ہے۔ گھر‘ سکولوں‘ بازاروں اور شاہراؤں کی تمیز نہیں رہی۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ مال مویشی ڈوب چکے ہیں یا بھوک سے مر رہے ہیں اور جو سبھی فصلیں جو کٹنے کے لئے تیار تھیں پانی کی نذر ہو چکی ہیں۔ سیلاب سے کم از کم بیس لاکھ ایکڑ فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔ کپاس‘ کھجور‘ گندم‘ سبزی اور چاول جیسی فصلیں سیلابی علاقوں میں پانی کی نذر ہو گئی ہیں جبکہ تعمیروترقی کا پورا نظام ختم ہو چکا ہے۔ ایک ایسا نظام جو مستقبل میں غذائی تحفظ اور مہنگائی جیسے مسائل کا علاج تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیروترقی اور زرعی معیشت و معاشرت پچاس سال پیچھے چلی گئی ہے۔
سیلاب کے نقصانات شمار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (OCHA) نے باضابطہ طور پر 116اضلاع کی نشاندہی کی ہے جو متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 66کو سرکاری طور پر ’آفت زدہ‘ قرار دیدیا گیا ہے۔ ان اضلاع میں سے 31بلوچستان میں‘ 23سندھ میں‘ 9خیبر پختونخوا اور 3 پنجاب کے ہیں۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ”تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی مرمت اور تعمیر نو کے لئے پاکستان کو کم سے کم 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی اور اس طرح کی تعمیر نو میں پانچ سال لگ سکتے ہیں۔“ 1960ء کی دہائی کے بعد سے تیار کردہ ترقیاتی انفراسٹرکچر کا ایک بڑا حصہ صفحہئ ہستی سے یا تو مٹ چکا ہے یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ تر اُن علاقوں میں ہوا ہے جو پہلے ہی ترقی سے محروم یا ترقی کے اشارئیوں کے لحاظ سے ملک کے باقی ماندہ حصوں سے پیچھے تھے یہی وجہ ہے حالیہ سیلاب سے ہوئے معاشی اور سماجی نقصانات ایسے بھی ہیں‘ جنہیں پورا کرنے میں چند سال نہیں بلکہ شاید کئی دہائیاں لگیں گی۔