پہلا نکتہ: سیلاب متاثرین کی امداد جس ’قومی جذبے‘ سے کی گئی ہے وہ بے مثال ہے لیکن قومی اتحاد و اتفاق صرف کسی ہنگامی صورتحال ہی میں کیوں دیکھنے کو ملتا ہے؟ پاکستانی معاشرے میں انسانی ہمدردی اور خیرخواہی کی ایک ایسی صلاحیت بھی پوشیدہ ہے‘ جس کے ذریعے بہت سے قومی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں لیکن اِس کے لئے آغاز دو طرح کے اقدامات سے کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے‘ درپیش متعدد ہنگامی صورتحال کے باوجود موجودہ سیلابی ہنگامی صورتحال کے بارے حکومتی ردعمل کافی نہیں اور نہ سیلاب سے متاثرین کی امداد مجموعی طور پر کافی ثابت ہو رہی ہے! اِس صورتحال کا بڑی حد تک تعلق ملک کے ’معاشی بحران‘ سے بھی ہے جو سیلاب سے قبل ٹالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن معاشی بہتری کے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ سیلاب جزوی طور پر برسوں کی نظر اندازی اور ناکافی انتظام کی وجہ سے بھی ہے۔
بدلتے ہوئے موسمی حالات کا مطلب یہ ہے کہ قومی سطح پر قدرتی سانحات سے نمٹنے کی تیاری نہیں کی گئی۔اگرچہ موسمیاتی سائنس اور پالیسی مدد کر سکتی ہے لیکن اِس کے لئے ایک لچکدار معیشت اور ہنگامی حالات سے متعلق ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔ سب سے پہلے ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے اِس مرض کے ’ہنگامی علاج‘ کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم چیز صحت کا نظام ہے جو صحیح معنوں میں تب ہی فعال ہوگا جب طویل مدتی اصلاحات متعارف کروائی جائیں گی۔ تیسرا ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ درپیش قومی مسائل کے لئے ذمہ دار کوئی ایک سیاسی جماعت یا کسی ایک سیاسی جماعت کا رہنما نہیں بلکہ سب پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کے قومی مسائل درحقیقت ’اجتماعی ناکامی‘ کا نتیجہ ہیں جس نے ہمیں مستقبل پر صحیح معنوں میں توجہ مرکوز کرنے سے روک رکھا ہے اور اِس کے لئے ہم سب قصور وار ہیں لیکن اِس مرحلہئ فکر پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب اپنی کامیابیوں کا سہرا لینے میں بھی یکساں قصوروار ہیں۔
جس طرح ہماری ناکامیاں کسی ایک کے عمل کا نتیجہ نہیں اسی طرح ہماری کامیابیاں بھی (اگر ہیں تو) کسی ایک نجات دہندہ کی کارکردگی نہیں ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ مسائل کو حل کرنے کے لئے اُنہیں پیچیدہ بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بہت سے مسائل پیچیدہ بنانے سے ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہو جاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان کی قومی پیداواری صلاحیت کم ہے اور ملک چلانے کے لئے درآمدات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ درآمدات پر انحصار کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور اب سیلاب کی وجہ سے غذائی اجناس کی درآمدات بھی کرنا پڑ رہی ہیں۔ سیلاب سے اگر پاکستان کا بیس فیصد حصہ متاثر ہوا ہے تو باقی ماندہ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ یہی قومی مسائل کا پائیدار حل ہوگا جس کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر (قومی اتفاق رائے سے) کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا نکتہ: سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والی تنظیمیں‘ غیرحکومتی ادارے اور انفرادی طور ”ایثار کا مظاہرہ“ کرنے والوں کی اکثریت عمومی اور روایتی غلطی کو دہرا رہی ہے۔ سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے ’نیک نیتی‘ اپنی جگہ لیکن امداد کی تقسیم میں تشہیر غیرضروری ہے یقینا کسی محتاج شخص کو خوردنی اَشیا دیتے ہوئے اُس کے ساتھ تصویر (پوز) کرنا ”توہین آمیز“ طرزعمل ہے وہ سبھی ادارے اور سرکاری و غیرسرکاری تنظیمیں جو سیلاب متاثرین کی مدد کر رہی ہیں اگر تصاویر اور ویڈیوز کو آگاہی پھیلانے‘ مزید عطیات جمع کرنے کے لئے بطور ترغیب یا عطیات خرچ کرنے میں شفافیت یقینی بنانے کے لئے کر رہی ہیں تو ایسی کوششوں میں سیلاب متاثرین کے چہرے نہ دکھائے جائیں بلکہ امدادی کارکنوں کی مصروفیات کو زیادہ اہمیت (فوکس) دی جائے‘ایک اور توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ سیلاب متاثرین تک امداد پہنچانے کا سلسلہ مربوط نہیں اور اگر اِس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئے تو نہ صرف امداد کی تقسیم فوری طور پر ہو سکتی ہے بلکہ سڑک کناروں پر خیمہ زن متاثرین کے علاوہ دور دراز علاقوں میں پھنسے ہوئے متاثرین تک بھی امداد پہنچائی جاسکتی ہے۔