مجھے یہ تحریر لکھنے کی نوبت اس لئے پیش آئی کہ دو ایک روزپہلے ایک سبزہ زار سے درجنوں درخت کاٹے گئے۔جانے ان کا ارادہ کیا تھا۔ مگر عام طور سے شہر کو توسیع دینے کے لئے یا کسی عمارت کے تعمیر ہوتے وقت درختوں کو کاٹا جاتا ہے۔تاکہ جو رکاوٹ ہے وہ دور کردی جائے اور کھلی کھلی سانس لینے میں آسانی ہو۔شاید رہائشی آبادی کو وسیع کرنے کا خیال ہو۔مگر جب ان پر اعتراض ہوا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ ہم یہ درخت یہاں سے سالم اکھاڑ کر دوسری جگہ ٹرانسپلانٹ کریں گے۔کسی دوسری جگہ بعینہ اسی طرح ان کو نصب کر دیں گے۔ ہمارے ہاں جوموسم کی سختی سیلابوں کی صورت میں آئی ہیں او ر آئندہ بھی اگر اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہوتو وہ انہی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ہم نہ صرف درخت کاٹتے ہیں بلکہ دھواں گیس دھول دھبے مٹی غبار اُڑاتے پھرتے ہیں اور فخر سے ہمارے سر مزید تن جاتے ہیں۔ کہیں درخت کاٹے گئے تھے۔
یہ منظر اس کے دل کو دکھا گیا۔ وہ بہت دکھی ہوا اور اس نے ایک مشہورِ زمانہ نظم لکھی تھی۔ اس نظم کا نام ”توسیعِ شہر“ ہے۔ ساٹھ کی عمر پائی اور لگ بھگ آج سے ساٹھ برس قبل ہی اس نے اس نظم میں درختوں کے کٹ جانے کا دکھ بیان کیا ہے۔اس نے زندگی کی ساٹھ بہاریں تب تلک تو دیکھ ہی چکی تھیں۔ مگراس وقت اس کی یہ سوچ کہ درختوں کا کاٹنا دراصل اپنے ہی گلے کے لئے تلوار کا اہتمام کرنا ہے جس شاخ پر بیٹھے اسی کو کاٹنا ہے۔حیرانی ہے کہ آج بھی اس جدید زمانے میں جب نیٹ او رمیڈیا اور کیا کچھ نہیں۔مگر آج کے اکثر و بیشتر لوگوں کو درختوں کے کاٹ ڈالنے پر رتی برابر افسوس نہیں پہنچتا۔بلکہ دھڑلے سے کاٹتے ہیں اور خوب کاٹتے ہیں۔جی ہاں اس شاعر کا نام مجید امجد ہے۔نظم کا ایک بڑا شاعر لگ بھگ چارسو خوبصورت نظمیں اس کے کریڈٹ پر ہیں۔
مجھے برسوں پہلے کے ہمارے پرنسپل صاحب یاد آ گئے ہیں۔ تیز آندھی چلی تو گورنمنٹ کالج کے سٹاف روم کے باہر درخت گر گیا۔ خدا ان کو مزید زندگی دے اب ریٹائرڈ ہیں اور پروفیسروں کی ٹریننگ کے ادارے میں طویل لیکچر دیتے ہیں۔ وہ کالج کی چھٹی ہونے کے بعد اس وقت تک گھر نہیں گئے جب تلک ان کی مشہور ِ زمانہ ڈائری ان کے ہاتھ میں تھی اور وہ درخت کی شاخیں گن کر اور اس کے تنے کا ناپ کر کے زمین پر پڑے درخت کا زاویہ کا پین گراف نہیں لے گئے۔جیسے پولیس کسی لاش کے گرد چاک سے اس کا کلبوت بنا لیتی ہے۔درخت کا گرا ہونا لاش ہی تو ہے کیونکہ یہ بھی جاندار ہیں پھر ان کی اہمیت انسان کی زندگی میں کتنی ہے اس سے کم از کم کی حد تک ہر دسواں لکھا پڑھا بندہ واقف ہے۔یہ اور بات کہ درخت کو کاٹا جاتا ہے۔پھرٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔
پھر مجید امجد نے بھی اپنی اس نظم میں یہی کچھ کہا تھا اور نصف صدی سے پہلے کہا تھا۔ ان کا شعور ان کا ژرفِ نگاہ تو دیکھیں نکتہ ئ نظر تو جانیں او رپھر نقطہ ئ نظر توملاحظہ کریں۔”جن کی سانس کی ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم۔مجھے یہ حال معلوم ہوا تو بہت دکھ پہنچا سو غبارِ خاطر نکالنے کو یہ الفاظ سپردِ قلم کئے۔یہاں تو لوگوں نے سیمنٹ اور کنکریٹ کا ماحول بنانے کو درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا ہے۔ درختوں کی کٹائی کے عمل کی برائی میں ٹی وی پر پہلے اشتہارات چلتے تھے کہ جو آدمی درخت کاٹ رہا ہے وہ اصل میں اسی درخت کے تنے سے اپنے لئے تابوت بنا رہا ہے۔کیونکہ درختوں اور سبزہ میں یہ کمال ہے کہ وہ دھواں گیس مٹی اور گرد و غبار حبس تپش کو خوراک کے طور پر بخوشی کھاتے ہیں۔
دھواں اندر کھینچتے ہیں مگر جو ان کے جسم سے واپس نکلتا ہے وہ آکسیجن ہوتی ہے جس سے انسان کی زندگی بندھی ہوئی ہے۔اسی نظم میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔حیرانی ہے کہ اُس دور میں بھی شاعر کا انتقال 1974ء میں ہوا ایسے ایسے جینئس لوگ موجود تھے۔ ان کی طرح کے لوگ اس جدید معاشرے میں بھی وہ سوچ نہیں رکھتے۔درختوں کو مختلف مقاصد کے لئے کاٹا جاتا ہے۔فرنیچر اور ایندھن وغیرہ کے لئے۔یہ درخت تو کاٹے جائیں گے کیونکہ لکڑی کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے مگر جہا ں ایک درخت کاٹ لیں وہاں کسی اور جگہ ایک درخت لگا بھی تو لیں۔