خطرات و خدشات

خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب سے ’صحت کی سہولیات‘ کو پہنچنے والے مجموعی نقصانات کا تخمینہ 4 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں صوبائی محکمہئ صحت نے نقصانات سے متعلق اعدادوشمار مرتب کئے ہیں جنہیں وفاقی حکومت اور عالمی امدادی اداروں کو بھیجا جائے گا۔ فہرست کے مطابق کئی ایسے ہسپتال بھی ہیں جہاں سیلابی پانی کھڑا ہے اور اِس پانی کو نکالنے‘ صفائی اور علاج گاہ کی بحالی و فعالیت کا کام جاری ہے۔  حکومت کی نظریں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور بین الاقوامی عطیہ دینے والے اداروں پر ہیں جن سے تباہ شدہ صحت کے مراکز کی تعمیر نو کے لئے مالی مدد دینے کی اپیل کی جائے گی۔خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صحت کی سہولیات کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی جلد از جلد از سر نو تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کو سہولیات ملنا شروع ہو سکیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق سیلاب نے صحت کے 53 مراکز کو مکمل طور پر نقصان پہنچایا جن میں 16سول ڈسپنسریاں (سی ڈیز)‘ 33 بنیادی ہیلتھ یونٹس (بی ایچ یوز) اور 4 دیہی مراکز صحت (آر ایچ سی) شامل ہیں۔ اِن میں زیادہ تر ٹانک‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرک اور کوہستان اپر جبکہ سوات‘ دیر‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ہیں۔ ان ہسپتالوں کو دوبارہ بنانے کے لئے اندازاً چار ارب روپے درکار ہوں گے تاکہ علاج معالجے کی خدمات کی فراہمی جاری رہے لیکن جب تک علاج گاہیں بحال و فعال نہیں ہو جاتیں اُس وقت محکمہ صحت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ’میڈیکل کیمپس‘ کے ذریعے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا رہے گا۔ اِس سلسلے میں سیکرٹری صحت عامر سلطان ترین نے صوبائی حکومت کے لئے جامع رپورٹ مرتب کرنے کے لئے اجلاس طلب کیا تھا جس میں مکمل طور پر تباہ شدہ عمارتوں کے علاوہ بارش کے پانی سے متاثرہ 190سے زیادہ صحت کی سہولیات کو پہنچنے والے جزوی نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ خیبر پختونخوا میں صحت عامہ کی کل ”2 ہزار 651“ سہولیات ہیں جن میں ٹیچنگ ہسپتال‘ کیٹیگری اے بی اور سی ہسپتال‘ بی ایچ یوز‘ آر ایچ سیز‘ سی ڈیز‘ ماں و بچے کی صحت کے مراکز‘ سول ہسپتال‘ ذیلی صحت کے مراکز‘ کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز اور جذام کے مراکز شامل ہیں جہاں مریضوں کو مفت طبی معائنہ اور ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں تاہم ہفتہ بھر کی بارشوں اور سیلاب نے اُنیس اضلاع میں صحت کی سہولیات کو تباہ کیا ہے جہاں محکمہ نے بارشوں سے پیدا ہونے والی خوراک اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے مفت طبی کیمپوں کا انعقاد جاری رکھا ہوا ہے۔ محکمہ صحت نے اب تک سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ایک لاکھ اَسی ہزار سے زائد مریضوں کو علاج فراہم کیا ہے جن میں تیس فیصد لوگ شدید پانی والے اسہال اور پچیس فیصد جلدی امراض (انفیکشن) میں مبتلا پائے گئے۔ صوبائی محکمہئ صحت اب بھی ذیلی محکموں‘ جیسا کہ پانی و صفائی‘ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور تحصیل میونسپل انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ صحت کی سہولیات سے کھڑے پانی کو صاف کیا جا سکے اور مریضوں کو معمول کے مطابق خدمات ملنے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو جائے جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا۔ محکمہئ صحت پانی کی تطہیر (کلورینیشن) اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے عوامی آگاہی میں بھی مصروف ہے کیونکہ سیلاب کے بعد بھی آلودہ پانی پینے سے بیماریاں پھیلنے (لاحق ہونے) کا خطرہ رہتا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے اور اِس سلسلے میں سیلاب زدہ اضلاع پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔