ایشیا کپ کے جاری عالمی کرکٹ مقابلوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ غیرمتوقع طور پر دلچسپ رہا جب ایک موقع پر پاکستان کو جیت کیلئے 5 اوور (30 گیندوں) پر 45 رنز درکار تھے اور اُس وقت شاداب خان اور افتخار بلے بازی کر رہے تھے‘ جن کے بعد آصف علی‘ نواز اور خوشدل شاہ کو آنا تھا یعنی پاکستان کے تمام بلے باز آؤٹ ہو چکے تھے اور صرف باؤلرز باقی تھے جنہوں نے میچ بچانا تھا اور وہ بھی ایک ایسے گرمجوش ماحول میں جبکہ سٹیڈیم میں شور شرابہ زیادہ اور کرکٹ کم تھی بظاہر میچ افغانستان کے حق میں تھا اور یہی وجہ تھی کہ افغان کھلاڑیوں کی چال ڈھال میں رعونت دیکھی جا سکتی تھی لیکن ابھی 5 اوورز کا کھیل باقی تھا اور افغانستان کے حامیوں کے شور شرابے اور ٹیم گرین شرٹ کے حامیوں کی خاموشی تلے طوفان چھپا ہوا تھا‘ جو کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا بہرحال چار اوورز میں پاکستان کی مزید چھ وکٹیں گریں اور میچ کا فیصلہ ’آخری اوور‘ اور ’آخری وکٹ‘ تک جا پہنچا۔ جب آخری اوور شروع ہوا تو افغان تماشائیوں کا جشن اپنے عروج پر تھا کیونکہ پاکستان کو گیارہ رنز کی ضرورت تھی اور آخری بلے باز نسیم شاہ کریز پر موجود تھے‘ یہاں جو ہوا‘ وہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ فاسٹ باؤلر نسیم شاہ پاکستان کے نجات دہندہ بن جائیں گے‘ جی ہاں! نسیم نے ابتدائی تین اوورز میں صرف اُنیس رنز دے کر تین وکٹیں لے لی تھیں اور اُنہوں نے افغان باؤلر ’فضل حق فاروقی‘ کو پہلی دونوں گیندوں پر یکے بعد دیگرے 2 چھکے جڑ دیئے۔ یوں پاکستان نے ایک وکٹ سے ناقابلِ فراموش کامیابی حاصل کرلی شائقین کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان نے ایشیا کپ اُسی دن جیت لیا تھا جب اُس نے بھارت کو شکست دی‘افغانستان کے مقابلے میں جیت کتنی بڑی تھی اِس بات کا فیصلہ میچ کے بعد منائے جانے والے جشن سے لگایا جا سکتا ہے۔دراصل 19ویں اوور میں آصف علی اور افغان باؤلر فرید کے درمیان زبانی کلامی ایک جھڑپ ہوئی بہرحال‘ پاکستان کی اِس کامیابی نے نہ صرف افغانستان بلکہ افغانستان کے ساتھ بھارت کو بھی ایشیا کپ کی دوڑ سے باہر کردیا ہے پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ تاریخ بھی دونوں ملکوں کی سیاسی تاریخ کی طرح پیچیدہ بھی ہے اور دلچسپ بھی‘ 2011ء میں افغان ٹیم کو ”ون ڈے انٹرنیشنل میچ“ کھیلنے کی اجازت ملی‘2012ء میں شارجہ ہی کا میدان تھا‘ جہاں افغان ٹیم نے پاکستان کے خلاف پہلی بار کوئی ایک روزہ میچ کھیلا‘ تب سے آج تک دونوں ممالک مختلف فارمیٹس میں سات مرتبہ آمنے سامنے آئے ہیں اور ہر بار فتح نے پاکستان کے قدم چومے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جیت کا مارجن کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ آخری چار میچوں نے تو سنسنی خیزی کی حدیں ہی پار کرلیں۔ یہ ایسے مقابلے تھے جنہیں دیکھنے سے پہلے محکمہ صحت کا انتباہ چلانا چاہئے تھا کہ کمزور دل رکھنے والے پاک افغان مقابلوں سے دور رہیں‘ایشیا کپ 2018ء میں پاکستان کو افغانستان کے خلاف آخری اوور میں دس رنز کی ضرورت تھی اور اس کی سات وکٹیں گرچکی تھیں۔ تب شعیب ملک نے مسلسل دو گیندوں پر چھکا اور چوکا لگا کر پاکستان کو تین وکٹوں سے میچ جتوایا۔ اِس کے بعد ورلڈ کپ 2019ء کا وہ یادگار مقابلہ ہوا‘ جس میں 228رنز کے تعاقب میں 156رنز پر پاکستان 6وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔ تب عماد وسیم کے ناقابلِ شکست 49رنز اور آخر میں وہاب ریاض کے 9گیندوں پر 15رنز نے پاکستان کو ہدف تک پہنچایاگزشتہ سال 2021ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مقابلوں میں بھی پاک افغان ٹکراؤ ایسا ہی ہیجان خیز تھا 148رنز کے تعاقب میں پاکستان کو آخری 2اوورز میں 24رنز درکار تھے{‘ جب آصف علی نے کریم جنت کو ایک ہی اوور میں چار چھکے لگا کر میچ کا خاتمہ کیا پھر جاری ایشیا کپ (دوہزاربائیس) میں افغانستان کے خلاف پاکستان کے سارے بلے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور معاملہ آخری گولی اور آخری سپاہی تک پہنچ گیا تھا! افغانستان پاکستان کے خلاف کبھی جیت کے اتنا قریب نہیں پہنچا تھا۔ تب نسیم شاہ ایک لمحے کیلئے شاہد آفریدی بن گئے۔ فاتحانہ دوڑ لگاتے ہوئے نسیم شاہ نے پہلے بلّا پھینکا‘ پھر ہیلمٹ پھینکا‘ پھر بغل گیر ہوتے حسن علی کو دھکیلا‘ پھر دستانے پھینکے اور بڑی مشکل سے خوشدل شاہ اور دیگر کھلاڑیوں کے قابو میں آئے۔ ایسا لگتا تھا ان میں بجلی بھر گئی ہے۔ دوسری طرف افغان کھلاڑیوں کے چہرے انتہائی افسردہ تھے‘ جن کو پاکستانی کپتان بابر اعظم اور نائب کپتان شاداب خان نے تسلّی دی۔