کہانی میری 

زیادہ تر بائیک سواروں کے ہاں تو ٹینکی فُل کرانے کا تصور ہی نہیں۔ آج کل کم ہو تو سو اور زیادہ ہو تو تین سو کا ڈلوا لیتے ہیں‘ہمارا بھی طریقہ کار کچھ ایسا ہی ہے‘راستے میں پٹرول بھلے ختم ہو جائے اور مشین کو کاندھوں ہی پر اٹھا لیں مگر پٹرول ڈالیں گے تو اپنی مرضی کا‘یہاں ایک کام تو نہیں۔ہر چیز پر خرچہ ہے مگر کسی دن اگر دل نے کہا اور جیب بھاری محسوس ہوئی اور ہم نے پانچ سو کا ایندھن اپنے”طیارہ“ میں ڈال دیا پھر ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں‘پانچ سو کا پٹرول اور ہم نے ڈالا واہ بھئی اس سے بڑھیا اور کیا ہے‘سوچتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے بلکہ پھول ہی جاتے ہیں‘سوج کر جیسے غبارہ ہو ہوا کے دوش پر بھاگتے پھرتے ہیں مگر ہمیں معلوم اس وقت ہوتا ہے کہ اس غبارے کے لئے کسی سوئی کا بندوبست بھی ہے جب سرِ راہ ٹائر پنکچر ہو تو اتنی بھاری مقدار کا پٹرول بھی اب کس کام کا‘چلو کہیں قریب نہ سہی مگر دور تک ٹانگوں کے سہارے بائیک کو رواں رکھتے ہیں کیونکہ ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے‘ یہ کرتب بازی بھی تو پٹرول ہی کے اچانک ختم ہونے کے بعد پٹرول پمپ کی طرف گھسیٹے جانے پرہم نے آئے دن کی
 مشق سے سیکھی ہوئی ہے اگر سکت نہیں تو بائیک کو گھر میں چادر ڈال کر ساکن و ساکت کر دیں پیدل گھومنے میں کیا حرج ہے مگر دور کا جانا ہو تو پھر پٹرول کیلئے گھرمیں بچوں تک سے پیسے کی توقع کرو کہ بیٹا چکر کیلئے جانا ہے دیکھو آپ کے پاس جو بکی میں رقم جمع ہے وہ نکالو پٹرول ڈالیں اور اس گرمی میں ہوا کے زور پراڑتے پھریں نیلے گگن میں اور سوچیں کہ آج ہم آزاد ہوں دنیاکے چمن میں۔یہ غرور نہ سہی مگر فخر تو ہے کہ پاس والے بائیک سوار بیچارے معقول وضع اور طرح دار لباس‘پھر فیملی کے ساتھ ہو کر بھی دو سو کا پٹرول ڈالیں اور ہم نے کسی دن پانچ سو کاتیل ڈالوا لیا ہومگر یہ اعزاز زیادہ دن تو کیا زیادہ دیر بھی نہیں چلتا جلد ہی یہ خناس دماغ میں سے اُڑن چھوہو کر رفوچکر ہوتے ہوئے پتلی گلی سے نکل بھاگ کر نو دو گیارہ ہو جاتا ہے گاڑیوں والے بھی تو رونے لگے ہیں یہ تو نہیں کہ اس نگری میں صرف ہم ہی فریاد کر رہے ہیں مگر کون سنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی”زبانی میری“موٹر والوں نے پہلے شہرِ یاراں میں کاریں چلانا بند کر دی تھیں کیونکہ رش کے کارن وہ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں وقت پر نہیں پہنچ پاتے او ربھیڑ بھاڑ ہی میں کہیں روپوش ہو کر رہ جاتے‘ جلتے کڑھتے جب رش سے رہائی ملتی تو کہیں کسی تقریب میں عین کھانے کے وقت پہنچ کر اپنے آپ کو شرمندہ شرمندہ محسوس کرتے‘پھر ایسا ہوا کہ انہوں نے کاریں گھر کے کارپورچ میں کھڑی رہنے دیں اور موٹر سائیکل پر گھومنے لگے مگر ”انہیں کا کام ہے وہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ“وہ جو اس ہجوم کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ بدستور اس شہرِ گلِ زار میں پھر بھی کاریں چلاتے پھرتے لیکن اب تو ان لوگوں نے بھی چار پایوں کی گاڑیاں اٹھا کر گھر میں سِیل کر دی
 ہیں کیونکہ رقم دستیاب ہو تو جا کر پٹرول ڈالیں گے اور سڑک پر آئیں گے اگر پٹرول ڈال لیا تو فالتو کے چکر لگاناانہوں نے بھی اب بند کردیا ہے اپنا اچھے بچوں کی طرح دفتر وغیرہ گئے اور سیدھے سبھاؤ واپسی پر گھر پہنچے‘گھر والی تو پٹرول کی گرانی سے خوش ہو گی کہ صاحب اب وقت پر روز نہ سہی مگر اکثر گھر آجاتے ہیں‘بھلا جہاں پانچ سو روپے کے پٹرول سے تسلی نہ ہو وہاں کار میں بیٹھ کر پانچ ہزار کا پٹرول ڈالنے کا رسک کون لے کر کہیں گھومنے پھرنے کے قابل ہو‘کار میں پشاور سے اسلام آباد کو سیر کی غرض سے ہر ہفتہ اتوار جانے کانشہ تو گیا خاک ہوا‘ اب جاتے توہیں مگر سوچ سمجھ کر جاتے ہیں پٹرول پمپ پر جانے سے پہلے جیبیں ٹٹولتے ہیں کہیں کسی جیب سے بھان بھی مل جائے تو وہ بھی شاملِ حساب کتاب کرتے ہیں تب جا کر گھرسے تو قدم نکالا ہوتا ہے شہر سے بھی قدم نکال پاتے ہیں مگر وہ بے فکری کاآناجانا اب گیا اب تو ہمہ وقت پٹرول میٹر کی سرخ سوئی پر نظر رہتی ہے چلو بائیک کو تو گھسیٹ لیتے ہیں مگر گاڑی رک گئی تو کس سے مانگیں گے۔ سو اچھا ہے کہ بندہ گھر ہی میں رہے۔