معاشی نقصانات

سیلاب سے ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس حوالے سے ”معاشی نقصانات“ کے بارے میں ابتدائی تخمینہ جات پر نظرثانی کی گئی ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینے کے مطابق سیلاب سے سترہ یا اٹھارہ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے (نو ستمبر کے روز) سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے ”عالمی اپیل“ سیلاب سے ہوئے مجموعی نقصانات کا تخمینہ ’تیس ارب ڈالر‘ بیان کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حالیہ مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور شمالی پہاڑوں میں برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں تیزی اُور اضافے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس کی وجہ سے مکانات‘ سڑکیں‘ ریلوے ٹریک‘ پل‘ مال مویشی اور فصلیں زیرآب آئیں جبکہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کم سے کم 1391 افراد سیلاب سے ہلاک ہوئے ہیں۔

سیلاب کے بعد متوقع معاشی نقصانات کے حوالے سے اعدادوشمار جمع کئے جا رہے ہیں اور اِس سلسلے میں جب صوبوں سے ملنے والی تفصیلات کو دیکھا گیا اور صوبوں کی توثیق کے مطابق معاشی نقصانات میں سترہ سے اٹھارہ ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔ معاشی نقصانات میں اضافے کی بنیادی وجہ زرعی نقصانات کے بارے میں ابتدائی رائے کا غلط ثابت ہونا ہے۔ ابتدائی تخمینہ یہ تھا کہ خیبرپختونخوا پنجاب سندھ اُور بلوچستان میں مجموعی طور پر 42 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی ہے لیکن نظرثانی شدہ اعدادوشمار کے مطابق 82 لاکھ (8.25 ملین) ایکڑ سے زائد زرعی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اِن میں کپاس‘ چاول اور دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کھیت کھلیان اور باغات پانی سے بھر گئے ہیں۔ سیلاب اپنے پیچھے پانی‘ پتھر‘ بجری ریت وغیرہ چھوڑ گیا ہے جس کی درست طریقے سے صفائی ستھرائی نہ کی گئی اور مٹی کو صاف کرتے ہوئے کھیت بروقت تیار نہ کئے گئے تو یہ آئندہ چند ہفتوں میں گندم کی بوائی کے لئے سنگین خطرہ اور مسائل کا باعث ہوگا۔

 اندیشہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آئندہ سال گندم کی فصل نہیں لگائی جا سکے گی کیونکہ ’زرعی بحالی‘ کے لئے کوششیں کم وسائل ہونے کی وجہ سے انتہائی سست رفتار سے جاری ہیں جبکہ دوسری طرف بہت سے علاقوں سے ابھی سیلابی پانی نہیں اُتر اور محکمہئ موسمیات نے رواں ہفتے مزید بارشوں کی بھی پیشگوئی کر رکھی ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ کپاس اُور گندم کی بوائی والے میدانی علاقوں میں ابھی سیلاب کا زور بھی نہیں ٹوٹا‘ دریاؤں میں پانی سطح بلند ہے اُور مزید بارشوں کی بھی پیشگوئی کر دی گئی ہے تو بحالی و امدادی کاروائیوں (ترجیحات) کو اِن زمینی حالات کے مطابق ترتیب و تشکیل دیا جا رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں کپاس کی فصل پوری طرح تباہ ہو چکی ہے جبکہ اِس سیزن گندم کی بوائی بھی خطرے میں ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ’وزارت ِنیشنل فوڈ سکیورٹی‘ کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ آنے والی گندم کی فصل کی کم از کم امدادی قیمت میں اضافہ سے متعلق اپنی سفارشات (ماہرانہ رائے) سے تحریراً آگاہ کرے تاکہ اُس کی روشنی میں ’غذائی ضروریات‘ اور ’غذائی تحفظ‘ جیسے امور کا جائزہ لیاجا سکے۔

 وفاقی کابینہ کے اراکین بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور عالمی برادری کو اِس بات کی یقین دہانی بھی کروائی جا رہی ہے کہ سیلاب متاثرین کے لئے دیئے جانے والے عطیات اور بحالی کے لئے امداد شفاف طریقے سے خرچ کی جائے گی اور سیلاب کے نقصانات کم کرنے کے لئے ایک ایک پیسے کا استعمال کڑی نگرانی و تشخیص کے مؤثر نظام کے تحت کیا جائے گا جو کسی بھی قدرتی آفت کے موقع پر پہلی مرتبہ قائم کیا گیا ہے۔سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا تین روزہ دورہ انتہائی اہم پیشرفت ہے جبکہ اِس سے قبل پاکستان میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے اپنی الگ الگ رپورٹوں میں سیلاب سے ہوئے بڑے پیمانے پر نقصانات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت بھی اقوام متحدہ کے جملہ دفاتر کے ساتھ نقصانات کے تخمینہ جات و تشخیص کے عمل میں شریک ہے۔

 اِسی طرح عالمی بینک کی زیرنگرانی بین الاقوامی عطیہ دہندگان بھی سیلاب سے ہوئے نقصانات اور ضروریات کی تشخیص کے لئے اپنا الگ مطالعہ کر رہے ہیں اور پھر اِن تمام اعداد و شمار کو یکجا کر کے امدادی ضروریات کا تعین کیا جائے گا۔ وزارت ِمنصوبہ بندی کی جانب سے جاری مالی سال کے لئے ”پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)“ کو ڈھائی سو ارب روپے سے کم کر کے تین سو ارب روپے کر دیا گیا ہے اور اِسی طرح دیگر شعبوں میں بھی حکومتی اخراجات میں کمی لائی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ قومی وسائل سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں خرچ کئے جا سکیں۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کے مطابق ”ریپڈ اسسمنٹ لاگت“ کے تحت تخمینہ جات کرتے ہوئے سیلابی نقصانات کے بارے ابتدائی اندازوں سے زیادہ بڑی مالیاتی ضرورت سامنے آئی ہے تاہم سیلابی نقصانات کے بارے میں اب بھی حکومتی تخمینہ جات حتمی نہیں ہیں۔

 سیلاب کے دوران نقصانات جاننے کے لئے ”تیز رفتار تشخیص“ کی ایک مشق کی گئی تھی جس کے تحت دس سے ساڑھے بارہ ارب ڈالر کے معاشی نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا تھا جنہیں بڑھا کر سترہ سے اٹھارہ ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔ سیلاب کا دوسرا منفی اثر یہ ہوا ہے کہ ملک کی پیداواری صلاحیت (جی ڈی پی) کم ہوئی ہے اور اِس کمی کی وجہ سے فی کس آمدنی بھی کم ہوئی ہے جبکہ اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل نظام متاثر ہونے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی ادارہئ شماریات (پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس) کے جاری کردہ اعداد و شمار (9 ستمبر) سے ظاہر ہوتا ہے کہ آٹھ ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مہنگائی (افراط زر) کی شرح 42.7 فیصد جیسی بلند سطح تک جا پہنچی ہے تاہم گزشتہ ہفتے کے مقابلے افراط زر کی شرح میں کچھ کمی آئی ہے جو 45.5 فیصد بتائی گئی تھی اُور یہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔ اِس قدر مہنگائی کی بنیادی وجہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی زرعی نقصانات ہیں۔