میرا شہر کیسا ہے 

یہ نہیں کہ سرکاری چھڑکاؤ گاڑیاں متوجہ نہیں۔سب کچھ ہے مگر سست رفتاری سے۔ اگر ذرا پھرتی سے کام کیا جائے تو شہر کی خوبصورتی میں راتوں رات اضافہ ہو سکتا ہے۔پوری سڑک برسوں بعد بار بار کی کو کوشوں سے تعمیر تو ہو گئی۔مگر ایک مقام پر چھوٹا سا ٹکڑا ویسے کا ویسے رہا۔ جہاں روڑے اٹکائے گئے تھے اور رولر گھمائے گئے تھے۔ ساری دو فرلانگ کی یہ لمبی سڑک پختہ کر دی گئی تھی۔مگر ہال کے باہر اس پچاس فٹ کے ٹوٹے پر سڑک اسی طرح کچی رہی۔ایسا کیوں تھا اس بارے میں مخبر خاموش ہیں۔ اب تو یہ ٹکڑا پختہ کر دیا گیا ہے۔ اس ٹکڑے کو کچا رہنے میں مہینوں میں گزر گئے تھے۔ اب یہ سڑک یہاں کے مکینوں اور یہاں سے گزرنے والوں کی قسمت سے تعمیر تو ہوگئی ہے مگر یہاں سڑک کے عین درمیان میں سبزہ کے لئے طویل پٹی جوخالی رکھی گئی تاحال وہا ں کوئی سبزہ نہیں اگایا گیا۔یہ پٹی ویسے کی ویسے ویران اور بنجر پڑی ہے۔اگر یہاں دو رویہ سڑک کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کے لئے سیمنٹ بلاک رکھ کر اس پر سبزہ اگا دیں تو اس مقام کی خوبصورتی میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔کیونکہ اس سڑک کے دونوں کنارو ں پر شہر کے مشہور سکول کالج اور پھر ایک یونیورسٹی بھی واقع ہے۔

جس کی وجہ سے خاص طور پردوپہر اور صبح کے اوقات میں یہاں سٹوڈنٹس کی وجہ سے گاڑیوں کا بہت رش ہوتا ہے۔پھر عام طور سے بھی یہ سڑک روزانہ کے حساب سے اپنے اوپر کتنی بھاری بھرکم گاڑیاں گذارتی رہتی ہے اور منہ سے اف کی صدا تک نہیں نکالتی۔ یہی گرین بیلٹ پاس ہی گول چوک کے زیادہ آبادی والے حصے تک چلی گئی ہے۔جہاں بوٹے سبزے تو ہیں مگر کم دیکھنے میں آتا ہے کہ پانی چھڑکاؤ سرکاری گاڑیاں کھڑی ہو کر ان بیل بوٹوں کو پانی دیتی ہیں۔پھر بوٹے بھی کون سے ان گنت ہیں یہاں تو جیسے خزاں نے ڈیرہ ڈالا ہو۔بوٹے جیسے تیز ہوا اور آندھی میں جڑ سے اکھڑ چکے ہیں۔کم کم نظر آنے والے بوٹوں کی آبیاری کو سرکاری گاڑیاں کبھی کبھی آ کر بڑے پائپوں میں سے پانی گذار کر یہاں چھڑکاؤ کر لیتی ہیں۔ مگر وہ سبزہ کہاں گیا جو پہلے تھا۔پشاور کو اگر خوبصورت بنانا ہے تو پھر یہاں کے آر پار دکانداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر وہ کسی اوقات میں فراغت سے ہوں تو نکل کر سبزہ پرپانی کا ڈول ڈالیں۔اپنے اپنے حصے کے سبزہ کو نکھار بخشیں۔اس گرین بیلٹ کو مزید ہرا کرنے کی خاطر از خود کوشش کریں۔

 ورنہ سارا کام سرکاری عملہ پر ڈال دیں گے تو یہ کشتی کبھی کنارے نہیں لگے گی۔ پھر اگر سرکاری پانی چھڑکا بھی جاتا ہے تو دکانداروں کا فرض ہے کہ وہ اس گرین بیلٹ کی حفاظت کریں اور دکان میں بیٹھ کر اگر ان کو اس سبزہ کی رکھوالی کرنا ہو تو اس میں سستی نہ دکھائیں۔ پھر جی ٹی روڈ اور دوسری سڑکوں پرجو سبزہ ہے وہ تو دن بھر کی گذرنے والی گاڑیوں کے دھوؤں کی وجہ سے سبزہ کہلانے کا مستحق نہیں۔ اس لئے کہ سبزہ تو سبز ہوتا ہے مگر یہاں گرین بیلٹ اتنی آلودہ ہے کہ سبز کے بجائے گاڑیوں کے سائلینسروں سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے الٹا نیلے رنگ کی نظر آتی ہے۔یہا ں جو درخت ہیں وہ بھی اپنے اصلی ہرے رنگ میں نظر نہیں آتے۔ہاں جب بارش ہو جائے تو پھر یہی سبزہ ایک آدھ دن کے لئے دھل کر نکھر جاتا ہے۔حالانکہ ”یہاں جو پھول کھلا ہے کھلا رہے یونہی۔

 یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو“۔ مگر ایسا نہیں۔یہ تو احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے مگر احمد فراز نے کہا ”آکے دیکھو تو سہی میرا شہر کیسا ہے۔سبزہ و گل کی جگہ ہے گل و گلزار پہ خاک“ ضرورت ہے کہ شہر کو آلودگی سے پاک رکھنے کی خاطر ہر طرح کے ایمرجنسی اقدامات کئے جائیں۔جہاں گرین بیلٹ کے لئے جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے وہاں سیمنٹ کے بلاک رکھ کر اس پرسبزہ اگائیں اور سڑکو ں کو پامال تو ہونا ہے مگر اس کی بھی صفائی اور دھلائی کا اہتمام کیا جائے کیونکہ یہی شہر ہے او ریہی ہم ہیں۔ شہر کو ہمیں نے پاک و صاف رکھنا ہے۔ وہ اور ملک ہیں جہاں صرف حکومت ہر کام کر کے عوام کو سہولت مہیاکرتی ہے۔یہ وہ نگر نہیں یہاں تو خود عوام کو سرکاری لوگوں کا ساتھ دینا ہے۔کیونکہ یہ ملک ابھی ترقی کی منازل سے گزر رہا ہے۔ابھی اس کو اپنی منزل حاصل کرنے میں بہت وقت درکار ہے۔