سیلاب سے ملک گیر بحران کے بعد آگے مزید کئی طرح کے بحرانوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔، وبائی امراض سے نمٹنے کی کوششیں ابھی سے شروع کی گئی ہیں کیونکہ اس خطرے کاپہلے مرحلے پر سامنا ہے۔ اس کے بعد غذائی قلت کے بحران کو بھی نظر اندا زنہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بدترین سیلابی تباہی کے تناظر میں کہا ہے کہ ملک کا زرعی علاقے زیرآب آنے اور کھڑی فصلیں تباہ ہو جانے کی وجہ سے ملک میں خوراک کی قلت کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا۔ دوسری جانب حکومت اور امدادی تنظیموں کی طرف سے امدادی کاموں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔جس میں خوراک، خیمے اور دیگر سامان پہنچانے کی کاروائیوں میں تیزی لا ئی گئی ہے۔وزیر اعظم نے اس موقع پر ترکی کی جانب سے خوراک، خیمے اور ادویات مہیا کرنے پر ترک صدر کا شکریہ ادا کیا۔ ترکی اب تک بارہ عسکری طیاروں، چار مال گاڑیوں اور ترک ہلال احمر کے چار امدادی ٹرکوں کے ذریعے پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے امداد مہیا کر چکا ہے۔یہ بات اہم ہے کہ شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد اس وقت خواتین اور بچوں سمیت چھ لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد ریلیف کیمپس میں رہنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کے مکانات حالیہ سیلابوں میں تباہ ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ادارے اور مقامی خیراتی تنظیمیں بھی سیلاب متاثرین کے لئے امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بطور زرعی ملک اپنی زرعی پیداوار پر انحصار کر تے ہیں اور کبھی کبھار اضافی گندم افغانستان اور دیگر ممالک کو برآمد بھی کر تے رہے ہیں، تاہم اس وقت سیلاب کے باعث زرعی زمینوں کے زیر آب آنے سے زرعی پیدوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔مون سون بارشوں کے حالیہ موسم میں شدید سیلاب کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آ گیا۔ سیلابوں سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے بلوچستان اور سندھ رہے، تاہم صوبہ پنجاب کا جنوبی علاقہ بھی سیلابی تباہی کی زد میں آیا، اس کے علاوہ ملک کے متعدد شمال مغربی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی دیکھی گئی۔ حکومت نے حالیہ سیلابوں سے ہونے والی تباہی کا اندازہ دس ارب ڈالر لگایا ہے تاہم حکام کے مطابق ان سیلابوں سے ہونے والی اصل تباہی، اب تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی تناظر میں حکومت اور اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے مدد طلب کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جس پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اس کامقابلہ کرنا کسی ایک ملک کیلئے ممکن نہیں اور پوری عالمی برداری کو پاکستان کی مدد کیلئے سرگرم ہونا پڑیگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی ذمہ داری ترقیافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ماحولیات کو جو نقصان پہنچا ہے اس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور امریکہ برطانیہ سمیت مغربی ممالک نے ہی ماحول کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔