معافی تلافی


پہلا نکتہ: دنیا اُن ممالک کی اکثریت کا تعلق شمالی حصے (گلوبل نارتھ) سے جنہوں نے صنعتی ترقی کے نام پر عالمی آب و ہوا کو نقصان پہنچایا ہے اور اِس نقصان کی وجہ سے گلوبل ساؤتھ (دنیا کے جنوبی ممالک) شدید متاثر ہو رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے اور پاکستان کے سمیت دنیا کے سبھی ماحولیاتی متاثرین ممالک جن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں‘ اُن کے حل کے لئے چاہتے ہیں کہ سرمایہ دار ممالک (جنہوں نے ماحول کو تباہ کیا ہے) معافی تلافی کریں۔ اِس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے بھی حالیہ سیلابی صورتحال میں مطالبہ سامنے آیا ہے لیکن عالمی برادری پاکستان کے مصائب و مشکلات کے حوالے سے خاطرخواہ دردمندی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ دوسرا نکتہ: پاکستان اپنے قیام کے بعد سے تاریخ کی ”بدترین سیلابی آفت“ کا سامنا کر رہا ہے اور اُن امیر ممالک سے معاوضے کی توقع رکھے ہوئے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے اصل ذمہ دار ہیں اور حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی پاکستان کے اِس مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جس درجے کا سیلاب آیا ہے یہ اِس ملک کے ساتھ قطعی ناانصافی ہے کیونکہ پاکستان ماحولیاتی عدم توازن کے لئے ذمہ نہیں لیکن اِس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان بھی یہی مؤقف بار بار دنیا کے سامنے پیش کر چکی ہیں کہ ”پاکستان گلوبل وارمنگ کی وجہ نہیں لیکن اِس موسمیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہے۔“ موجودہ سیلاب سے ہونے والی انسانی ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ اِس سے اربوں ڈالر مالیت کا معاشی نقصان الگ سے ہوا ہے۔ اِس پوری صورتحال پر صنعتی ممالک کو دنیا کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے اور اِنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا محرک بننے کا جرم تسلیم کرتے ہوئے پاکستان جیسے ممالک کو معاوضہ ادا کرنا چاہئے۔ تیسرا نکتہ: اگر ترقی پذیر ممالک متحد ہو کر موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت اور اِس کے اثرات کا جائزہ لیں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی مدد کریں تو ’مستقبل قریب‘ میں نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی لائی جا سکے گی بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی ملک کو تباہی کا تن تنہا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو اپنی ذات میں قدرتی آفت سے زیادہ بڑی آفت ہے۔ ترقی پذیر دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ داروں سے مالی معاوضے کا تقاضا کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی میکانزم قائم کرنے پر اصرار کرنا چاہئے۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں دنیا کے سب سے زیادہ برفانی تودے (گلیشیئرز) ہیں اور یہ برفانی تودے کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پگھل رہے ہیں جس سے جانی و معاشی نقصانات ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یہ موسمیاتی موسمیاتی تبدیلیاں بصورت آفات اگر ظہور پذیر ہو رہی ہیں تو اِن سے نمٹنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ چوتھا نکتہ: بدقسمتی سے بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات اور تحقیقی مطالعات کی صورت غوروخوض نے اِس مسئلے کی نشاندہی تو کی ہے لیکن عملاً اِس مسئلے کی حل پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ متاثرہ ممالک کو انصاف و امداد مانگنے کے ساتھ ’نئے پلیٹ فارمز (باہمی تعاون کے امکانات)‘ کے قیام کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ قومی اور بین الاقوامی قانون کا مسلمہ (قبول شدہ) اصول ہے کہ جو کوئی بھی کسی دوسرے کے لئے نقصان کا سبب بنتا ہے اُسے نقصان کی جملہ قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اسی طرح آلودگی پھیلانے والوں کو اصلاحی کاروائی کی قیمت اور نقصان کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔ ”گرین ہاؤس (ماحول دشمن)“ گیسوں کے اخراج کی بات کریں تو اِس کے ذمہ دار معلوم ہیں۔ صنعتی انقلاب اور گزشتہ دو صدیوں میں تیزی سے صنعت کاری کا نتیجہ ہے کہ عالمی آب و ہوا تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ صنعتی ممالک بیسویں صدی کے آغاز سے اب تک ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کا تقریباً دو تہائی اضافے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور چین سے لے کر یورپ‘ جاپان‘ روس اور امریکہ تک سبھی ممالک کے ہاں آب و ہوا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے لیکن اگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی بات کی جائے تو اِن سب ترقی پذیر (غریب ممالک) نے اجتماعی طور پر فضا میں ’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ کا جس قدر اضافہ کیا ہے وہ بمشکل ایک حصہ ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے جرم کی پاکستان جیسے ممالک 100فیصدی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ایک ایسا جرم جو کبھی کیا ہی نہیں لیکن اُس کی سزا پاکستان اور اِس جیسے ترقی پذیر (تیسری دنیا کے) ممالک کو مل رہی ہے! اور یہ صورتحال اِس لئے بھی تشویشناک اور پریشان کن ہے کیونکہ پاکستان جیسے ممالک کے پاس موسمیاتی تباہیوں کی شدت سے نمٹنے کی تکنیکی صلاحیت و خاطرخواہ مالی وسائل موجود نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے پاکستان کے دورے کے دوران عالمی مالیاتی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ”قرضوں کی ادائیگی اور سخت معاشی شرائط میں الجھنے (سختی) کی بجائے پاکستان جیسے ممالک کے لئے موسمیاتی لچک اور پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے قابل بنانے کے لئے نیا طریقہ کار بنائیں۔“