معلوم نہیں یہ ہوائی فائرنگ کا کلچرہمارے ہاں کہاں سے آیا کب آیا کیوں آیا۔ دوسری قوموں نے سازش کر کے جدید اسلحہ ہمارے ملکوں میں لا کر بیچ دیا ہے او رہم نے جیسے صدیوں کے بھوکے ہوں خرید خرید کر اپنے ہاں جمع کرلیا۔جب ہمیں اپنے اس اسلحے کے لئے چلانے کو موقع دستیاب نہیں ہوتا تو ہم پستول صاف کرنے کے بہانے کسی دور پار کی خوشی پر اپنے اسلحے کی نمائش کرتے ہیں۔ پرائی شادی میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں اور جاتے جاتے ساتھ کلاشنکوف اور پستول بھی لے جاتے ہیں۔وہاں جا کر فخر کے ساتھ شادی کے گھروالوں کا ساتھ دیتے ہیں اور فائرنگ کر کے ان کی آنکھوں میں وفادار بن جاتے ہیں۔ہم بھی غرور سے سوج پھول جاتے ہیں اور وہ بھی ہماری ا س حرکت کو اپنی قوت میں اضافہ تصور کرتے ہیں۔دوسری طرف پولیس بھی اپنی بھر پور کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح اس قانون شکنی کا راستہ روکا جائے اور اس مقصد کیلئے شادیوں پر چھاپے بھی پڑے ہیں جہاں ہوائی فائرنگ کی گئی، یہاں تک کہ نتیجے میں دولہا کو حوالات کی سیر بھی کرائی گئی۔ ہمارا اس پر اطمینان ہے کہ فائرنگ کرنے والے کو دھر لیں مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہوائی فائرنگ سے ان کو کیا مل جاتا ہے۔پل بھر کی خوشی میں عمر بھر کا نقصان ہے۔یہ اگران کو معلوم ہو جائے تو شاید وہ دوبارہ یہ کام نہ کریں۔ میں اس مضمون میں ان حضرات سے مخاطب ہوں جن کو کسی طرح بھی احساس نہیں کہ ہوائی فائرنگ سے کیا نقصان ہوتا ہے۔کوئی اندھی گولی کسی کو ثابت نگل سکتی ہے۔پچھلے میچوں میں جو ہوائی فائرنگ ہوئی اس سے پشاور میں دو خواتین موت کے گھاٹ اُتر گئیں،کئی دیگر افراد زخمی ہوئے۔ مجھے یاد نہ تھا کہ اس دن ایک اہم میچ ہونے جا رہاہے۔ رات کو اچانک فائرنگ شروع ہوگئی۔ جاننے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پٹاخے اور کھلونا بم نہیں۔یہ سچ مچ کی فائرنگ ہے۔ یہاں تو ہر گھر سے مختلف آوازوں کے اسلحہ سے ہوا میں آگ اچھالی جا رہی تھی۔ ہمارے گھروالے بھی پریشان تھے۔کیونکہ لڑکے بالے باہر تھے۔ معلوم نہ تھا کہ کیا ہورہا ہے۔لیکن اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو کسی کرکٹ میچ کا اختتام ہوا ہوگا۔ جس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی جو ٹی وی لگا کر حال معلوم کر لیتے۔لامحالہ موبائل کی تحریری خبروں کی ویب سائٹ کھولی تو پہلی خبر یہی تھی کہ کرکٹ ٹیم میچ جیت گئی تھی۔انسان کو خود سینس ہونا چاہئے کہ ہوائی فائرنگ مزے کی چیز تو ہے مگر اس کے نتائج بہت برے ہوتے ہیں۔ وہ جو فائرنگ کرتا ہے وہ اپنی گولیا ں میلوں دور پھینک دیتا ہے۔ یہی سمجھتا ہے کہ میں نے دوردراز کے نشانے پر گولیوں کی بوچھاڑ کی ہے۔مگر اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی گولی سے کسی کی جان چلی گئی ہے۔ اس گولی سے مرنے والا تو معلوم ہوتا ہے مگر وہ گولی کس کی بندوق سے چلائی گئی اس کا ذکر اس گولی پر کہیں تحریر نہیں ہوتا۔ مگر جو پستول چلا رہا ہے اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ شاید میری گولی سے کسی کی جان کو نقصان پہنچ جائے۔