کرکٹ: ویک اَپ کال

’اِیشیا کپ 2022ء‘ کے سلسلے میں کرکٹ مقابلوں کا حتمی نتیجہ پاکستان کی فائنل میں شکست کی صورت ظاہر ہوا ہے لیکن اگر اِس پورے ٹورنامنٹ اور بالخصوص فائنل مقابلے میں ’ٹیم گرین‘ کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ کھلاڑی فائنل مقابلہ جیتنے کے لئے میدان میں اترے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان نے اِس پورے ٹورنامنٹ میں چھ میچ کھیلے جن میں سے تین میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور تین جیتے ہوئے میچوں میں سے 2 کا اختتام ایسا ہوا کہ نتیجہ ایک لمحے کی چوک سے کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اِس پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کامیابی کبھی کسی تو کبھی کسی کی انفرادی کارکردگی کی وجہ سے ہوئی ”ٹیم“ کہیں نظر نہیں آئی اور اگر کھیل کے لحاظ سے بات کی جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم نے ’ہانگ کانگ‘ کے خلاف اچھا کھیلا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی واضح خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح فائنل تک تو پہنچ گئی لیکن اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ غلطیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور یہ غلطیاں ہر کھلاڑی بشمول کپتان (بابر اعظم) سے بھی سرزد ہوئیں۔سپر فور کے ایک کھیل میں آئی لینڈرز سے ہارنے کے باوجود‘ پاکستان ایشیا کپ کا تاج دوبارہ حاصل کرنے کیلئے بھاری فیورٹ تھا لیکن سری لنکا کے ساتھ ان کی اپنی حماقتوں نے اِس کامیابی کا امکان ختم کیا۔

ابتدائی طور پر‘ ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ پاکستان کے حق میں ہے کیونکہ پاکستان نے اپنی مرضی سے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا انتخاب کیا اور ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں تو ٹاس جیتنے والی ٹیم پچاس فیصد میچ ویسے ہی جیت لیتی ہے کیونکہ اسے ایک طرح کی برتری حاصل ہو جاتی ہے لیکن سری لنکا نے اس حقیقت کے آدھا میچ ٹاس کی صورت ہارنے کے باوجود 100بلکہ 150فیصد کامیابی حاصل کی اور ایک موقع پر جبکہ سری لنکن ٹیم 5 وکٹوں کے نقصان پر صرف 58 رنز بنا کر شدید دباؤ میں ہانپ رہی تھی تو بلے باز ’بھانوکا راجاپاکسے‘ 45گیندوں پر ناقابل شکست 71 رنز بنا کر سری لنکا کو 170 کے زبردست مجموعے تک پہنچا دیا۔ پاکستان ٹیم کے بہترین فیلڈرز نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جیسا کہ ’شاداب خان‘ نے کئی کیچز چھوڑے اور اضافی رنز دیئے۔ بابر اعظم کی ناقص کپتانی بھی پاکستان کے کام نہیں آئی۔ بابر اعظم نے چھ مقابلوں میں مجموعی طور پر 68رنز بنا کر ثابت کیا کہ وہ ذہنی طور پر اِن مقابلوں کے لئے تیار ہی نہیں تھے بلکہ وہ کرکٹ انجوائے کرنے گئے تھے۔

یہی حال فخر زمان کا بھی رہا جبکہ پاکستانی باؤلرز شاید نپی تلی باؤلنگ ہی بھول گئے تھے۔  بلاشک و شبہ سری لنکن ٹیم پاکستانی ٹیم کے رعب میں نہیں آئی اور تمام کھلاڑی ایک ٹیم کی طرح کھیلے۔ صاف عیاں تھا کہ دونوں ٹیموں میں سے ایک مقابلہ جیتنے جبکہ دوسری فتح کی مستحق نہیں تھی۔ پاکستان کیلئے ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ میں شکست اگلے ماہ آسٹریلیا میں شروع ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل ”ویک اپ کال“ ہونی چاہئے یقینا کوچ ثقلین مشتاق نے اپنی تئیں کوشش کی لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم پہلے میچ سے ایسی نہیں تھی جو ورلڈ ٹائٹل جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس میں پاور ہٹرز کی شدید کمی ہے اور اس کا مڈل آرڈر ناقابل بھروسہ ہے‘ ٹیم کے تھنک ٹینک کو کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے فوری طریقے اور متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ آسٹریلیا میں ٹیم گرین کے کی مایوس کن کارکردگی شائقین کیلئے زیادہ بڑا ”صدمہ“ ثابت ہو گی۔