آدمی کولہو کے بیل کی طرح روز اپنے ہی چکر میں گرفتار رہے۔روز ایک ہی کام روزگار کرے۔ ایک طرح سے زندگی گزارے۔اس کا نتیجہ یہ کہ بندہ اکل کھرا بن جاتا ہے۔بس وہی روٹین اور روزانہ کی مشق خواہ جو بھی کرنا ہو۔ جو کمائی جوروزگار کام دھندہ ہو خواہ دفتر ہو دکان یافرم ہو کارخانہ ہو بندہ ان مشینوں کے ساتھ رہ رہ کر خود بھی مشین بننے لگتا ہے۔جیسے مشین کے احساسات اور جذبات نہیں ہوتے بندے کے خود کے بھی محسوسات اسی طرح ایک ہی روٹین میں بگڑ جاتے ہیں۔ یہ سارا کام یکسانیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔بندہ مشین بن جائے تو اس سے نقصان ہے۔ کیونکہ جیسے مشین کی ہمدریاں دوسرے انسانوں کو تو چھوڑ خود اپنے مالک کے ساتھ نہیں ہوتیں۔ اسی طرح انسان بھی دوسرے انسان کامعاون نہیں رہتا۔ یکسانیت آنے نہ پائے ورنہ یکسانیت ایک جھلسا دینے والی آگ بن جاتی ہے جس میں لوہا بھی ہو تو پگھل کر بوریت کی شکل میں ڈھل جاتاہے۔”آدمی آدمی سے ملتا ہے۔دل مگر کب کسی سے ملتا ہے“۔ مگر دوسری طرف ایک مصرع یہ بھی ہے ”دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے“۔ کیونکہ میل جول آپس کی گپ شپ سے خواہ روزانہ ہو اور اپنی ہی فیملی کے ہمراہ ہو یار بیلی کے ساتھ ہو چاہے ہفتہ واری ہو بندہ کو مشین بننے سے روکتی ہے۔مشین کی طرح ہمہ وقت بس کام ہو تو بندے کے احساسات زخمی ہو کر کُند ہو جاتے ہیں جیسے کوئی چھری جس میں کاٹ نہ رہے۔زندگی تو ہے مشکل چیز۔مگر اس کی مشکلات اگرزیادہ ہوں اور اوپر سے بندہ اس کی جکڑ بندیوں میں اس کے شکنجوں کے کارن مزید بندھا جائے تو عجب نہیں کہ اس میں انسان ہونے کے بجائے حیوانی خصوصیات آ جائیں۔
ایسی صورتِ حال میں زیادہ تر شائبہ یہی ہوتا ہے کہ آدمی دوسرے آدمی پر دل نہیں دکھاتا‘ خاص طور پر آج کل تو صورتِ حال بد تر بھی نہیں بدترین ہے۔ہر سو مایوسیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ایسے میں اگر ان پھول کے کانٹوں میں سے عطر کشید کر لیا جائے تو برا نہیں۔کیونکہ زندگی کسی کی ہو آسان نہیں۔ہر بندے کو کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ایسے میں اگر کسی کے ساتھ ہنس لئے دو بول میٹھے بول لئے اور ایک آدھ مسکراہٹ سے پیش آئے۔ماتھے پہ بل نہ ہوں تو کتنا اچھا ہو۔خاص ان دنوں ہمارے ہاں زندگی کا مزا پھیکا ہو چکا ہے۔جیسے گرمی میں سرخ ٹھنڈا گلاس شربت میز پر پڑا ہو۔مگر جب اٹھا کر لبوں سے لگائیں تو پھیکاہو‘یونہی آج کل ہمارے ہاں کا ماحول روٹی پانی کی گرانی اور حیرانی میں کچھ یونہی پنپ رہا ہے‘ہر ایک کو اپنے کسب روزگار کی فکر پہلے ہے پھر کپڑے اور پھر مکان کا غم ہے۔ سو ایسے میں اگر زندگی بوریت کاشکار ہو اور یہ بوریت یکسانیت سے آئی ہو تو اس یکسانیت کو توڑنے کے لئے ہفتہ میں ایک دن یا سرکاری چھٹیوں میں دو دن اپنی فیملی کے ساتھ ضرور گپ شپ کا ڈول ڈالیں چھٹی میں وہ کام کریں جو آپ روز نہیں کرتے۔کیونکہ چینچ بہت ضروری ہے۔اسی سے بندہ کا من اس دل زدہ حیات میں زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹ کر آ سکتا ہے۔ورنہ تو دق زدہ چہرہ لے کر سارا سارا ہفتہ بیٹھیں رہیں گے۔کس آدمی کی تفریح کس طرح ہوتی ہے۔یہ تو اپنا اپنا مزاج ہے۔
کوئی آؤٹنگ کا دلدادہ ہے شہر سے باہر نکل جاتا ہے۔فیملی کو لیا اور گاڑی میں پٹرول ڈلوایا حسبِ توفیق کہیں دور کہیں نزدیک چلے گئے سیر سپاٹاکیا کچھ تبدیلی کی روش اختیار کی اور جیب کے مطابق چائے وائے پی لی کھاناکھا لیا یا فوڈ ساتھ لے گئے اور وہاں کسی سبزہ زار میں بیٹھ کر اس لان کی اپنی خوبصورتی کو سرسبزی میں انجوائے کر کے ان سخت گھڑیوں سے بزور لطف کشید کر لیا خودبھی ہنسے دوسروں کو بھی ہنسایا لطیفے سنے اور سنائے سچے مزاحیہ واقعات یاد آئے تو حاضرین محفل کی نذر کر دیئے چلو زندگی کا ایک دن کٹ گیا۔دفتری رول ہمارے ہاں نہیں۔ مگر چین میں تو دفاتر میں دوپہر کو گھنٹہ بھر سونا دفتری لوازمات ہیں۔اگر نہ سوئے تو آپ یکسانیت کاشکار ہو ں گے۔ یوں آپ کی کارکردگی کے خراب ہونے کامطلب دفتر کے انتظام میں خرابی ہے۔ہمارے ہاں دوپہر کو کھانے کے بعد قیلولہ کرنا اسی چیز کا دوسرا نہیں بلکہ پہلا نام ہے۔بندہ آدھ گھنٹہ سو لے تو اپنے آپ میں زیادہ توانائی محسوس کرتا ہے۔