اس شہرمیں جو بھی رہتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ سڑکوں کے بچھے ہوئے جال کے ہر ایک موڑ سے واقف ہوکیونکہ اس شہر میں ٹریفک کے جال کے ہاتھوں شہریوں کی بہتات کی وجہ سے جینا مکمل نہیں مگر تقریباً دوبھر ہو چکا ہے‘ سڑک پر آنا ہے تو اتنا معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سڑک کس طرف کو جاتی ہے او رپھر آگے جا کر کس کس طرف کو نکلتی ہے یہ بھی پورا علم ہے جس میں ہر شہری کو ماسٹرز کی ڈگری حاصل ہونا چاہئے کیونکہ مزید سڑکیں تو روز روز نہیں بنتیں سو جو ہیں ان پر گزارا کریں اور ان کے مزاج کو سمجھیں‘پہلے شہر کے گرد سرکلر روڈ تھی جو شہر کے باہر سے گزرتی تھی۔انگریزی میں سرکل کا مطلب دائرہ ہے اور دائرہ کیلئے دوسرا لفظ رِنگ ہے‘جب شہر اپنے سولہ دروازوں سے باہر چھلکنے لگا اور آبادی کے ایک بہتے ہوئے سیلاب کی طرح شہر کے ویرانوں میں جاکر اپنے پر پھیلا ئے خیمے گاڑھے بیٹھ گیا تو پھر شہر کے پاسبانوں کو ضرورت پیش آئی کہ اب سرکلر روڈ کی طرح ایک اور سڑک ہونی چاہئے کیونکہ سرکلر روڈ جو نشتر آباد سے شروع ہوکر رامداس تک باہرو بار جاتی ہے وہ شہر کی حدود کے اندر قید ہو چکی تھی۔
سو شہر کے مشران سر جوڑ کر بیٹھے او رانہوں نے رنگ روڈ کا ڈول ڈالا۔ اب جو ٹریفک ہے اس اٹھائیس میل رنگ روڈکو لے کر شہر کے گردا گرد گھومتی پھرتی ہے۔ پھر نادرن بائی پاس اور دیگر ملحقہ سڑکیں ایجاد ہو گئیں۔ اس کے بعد مزید سڑکوں کی لکیریں زمین پر کھرچ کھرچ کرکھینچ دی گئیں۔ ان پر سڑکیں تعمیر ہوگئیں۔پھر اس کے بعد پل بنے جو مرمت شدہ بھی ہیں او رنو تعمیر بھی ہیں زیرِ تعمیربھی ہیں۔پھر پرانی سڑکوں کو الاسٹک کی طرح کھینچ کھانچ کر چوڑا کر دیا گیا۔ اس میں ٹریفک کے بہاؤ کی زیادہ گنجائش پیدا کر دی گئی۔ راہ میں جو کچھ آیا وہ مسمار کردیا گیا اور شہریوں کے لئے زیادہ آباد و شاد اور کشادہ راہیں تخلیق کر دی گئیں‘چارسدہ روڈ کی کشادگی کو سامنے رکھا گیا تو ناگمان تک سڑک نہ صرف کھلی ڈلی بلکہ کشادہ او رحسین کر دی گئی۔مگر ہمارے شہریوں کو سڑکوں کے مزاج سے آشنائی حاصل نہ ہوسکی۔ وہ جہاں منہ اٹھاتے ہیں نکل جاتے ہیں۔کوئی گاڑی ہے یا رکشہ ہے حتیٰ کہ گدھاگاڑی تک کو فرق محسوس نہیں ہوتا کہ اب کہاں جانا ہے۔بس جانوروں کی طرح جنگل میں جہاں نکل جائیں جائیں چلتے جائیں۔
ان چوپایوں کو واپسی پر تو اپنا گھر تک بھول جاتا ہے۔ یہی حال اب اپنے اس شہر باکمال کا ہو چکا ہے۔جس کی جہاں مرضی وہاں نکل جائے اور جہاں جہاں خالی راستہ ملے وہاں تک ہو آئے۔ راستے میں رش ہو تو کسی گلی میں آگے جانے والی ٹریفک کے پیچھے بھیڑ چال کرتا ہوا بھاگتا چلا جاتا ہے‘بھلے آگے جاکر پوری کی پوری ٹریفک بارہ سنگھے کی طرح جنگل میں جھاڑیوں سے الجھ کر وہیں تڑپتی رہ جائے۔ ایسے میں شہری کو سروے کرنا چاہئے کہ کون سی سڑک دن کے کون سے وقت میں بہت مصروف ہوتی ہے۔ سو کسی راستے کے مسافر ہوتے وقت اس سڑک کی مصروفیات کو ذہن میں رکھ کر اس طرف جانے سے گریز کریں۔ کیونکہ وہاں تو پہلے ہی ٹریفک زیادہ ہے اس پر آپ وہاں سے ہو کر جائیں تو الٹا دھرتی پر بوجھ بن جائیں‘ کیوں نہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا جائے‘دیر سے سہی مگر سکون سے پہنچ جائیں‘ ہمیشہ کیلئے نہ پہنچنے سے بہتر ہے کہ دیر سے پہنچیں۔
میں حیات آباد سے نکلا تو پچھلی سواری نے کہا کہ آپ تو رنگ روڈ پر آگئے ہیں‘ میں نے بچوں کی اماں کو یاد دلایا کہ دیکھو صدر کی راہ سے ہوکر گئے تو اسی روٹ پر پھنسے رہ جائینگے یہ رنگ روڈ ہے دو رویہ ہے اس پر ٹریفک کا بوجھ تو ہے مگر گاڑیاں آپس میں الجھ نہیں جاتیں‘ پھر اس راستے میں پیدل مارچ کرنے والے کم سے کم ہوتے ہیں‘پھر اس سڑک پر دو اطراف اضافی سروس روڈ بھی ہے‘دس منٹ دیر سے پہنچیں گے مگر اعصاب پر تو دباؤ نہیں پڑیگا‘صدر کے رش سے بھی بچ جائیں گے‘شہر میں چلنے والی جی ٹی روڈ پر چائنا کی نئی نویلی بسوں نے شہر کے باسیوں کو بہت بڑی سہولت دی ہے مگر اس کے باوجود بھی صدر سائیڈ پر بہت بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے‘سو یہ رنگ روڈ اچھا ہے کہ گھر تک آرام سے پہنچ تو جائیں۔سو اسی لئے عرض گذاری ہے کہ سڑکوں کے مزاج کو سمجھ کر قدم گھر سے باہر نکالنا ہوگا۔صبح کون سی سڑک مصروف ہوتی ہے اور شام کو کس سڑک پہ رش ہوتا ہے۔دوپہر کو کس روڈ کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ہر طرح کی معلومات جو سڑکوں کے حوالے سے ہیں شہری کو معلوم ہوں۔