آسان زندگی

پاکستان کے 73فیصد مرد و خواتین کا خیال ہے کہ موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے اِن کی زندگی بہتر اور آسان ہوئی ہے جبکہ اس سے مالی خود مختاری بھی حاصل ہوئی ہے۔ ’ٹیلی نار ایشیا‘ کی جانب سے جاری کردہ ایشیائی ممالک کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر ایشیائی خطے میں 92فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ ”موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ’زندگی آسان‘ بناتا ہے“ موبائل نیٹ ورک آپریٹر کی جانب سے پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ ویت نام‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن‘ ملائیشیا‘ سنگاپور اور انڈونیشیا میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے خواتین مردوں کی نسبت زیادہ فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ تحقیق کے دوران تمام ایشیائی ممالک سے آٹھ ہزار سے زائد افراد سے رائے لی گئی اور اُن سے مختلف سوالات پوچھے گئے۔ سروے میں تمام ممالک کے دیہی اور شہری علاقوں کے صارفین شامل تھے جن میں نصف تعداد خواتین کی تھی اور اس میں ہر عمر کے افراد سے رائے لی گئی۔ سروے نتائج سے معلوم ہوا کہ ایشیائی خطے کے بانوے فیصد افراد کا خیال ہے کہ موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی باسہولت ہے۔

 پاکستان کے 73فیصد افراد یہ سوچ رکھتے ہیں کہ موبائل سے ان کی زندگی بہتر اور آسان ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی 52فیصد خواتین کا ماننا ہے کہ موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے ان کی زندگی نہ صرف بہتر ہوئی بلکہ آسان بھی ہوئی اور انہیں اپنے خاندان‘ شریک حیات اور دوستوں سمیت دیگر رشتے داروں اور افراد کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے میں بھی فائدہ ملا ہے۔ خواتین کے مقابلے میں صرف چالیس فیصد مرد حضرات نے بتایا کہ ان کی زندگی موبائل وانٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے بہتر ہوئی ہے۔ سروے میں باون فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے ان کے تعلقات اپنی شریک ِحیات سے بہتر ہوئے ہیں۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں گزشتہ دو سال کے اندر موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے استعمال میں 38فیصد اضافہ ہوا‘ جبکہ اس سے پاکستان کے لوگوں کو مالی خود مختاری بھی ملی یعنی وہ موبائل سے اپنی مرضی کے مطابق پیسوں کی لین دین بھی کر سکتے ہیں۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تیئس فیصد پاکستانی ایسے ہیں جو اپنا پورا دن موبائل کے بغیر گزارانا پسند نہیں کرتے جب کہ بیس فیصد لوگ اپنے دن کا نوے فیصد حصہ موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ سروے کے مطابق اُنچاس فیصد پاکستانی اپنے دن کا نصف یا اس سے کچھ زائد حصہ موبائل و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ گزارتے ہیں۔موبائل فون سے متعلق خواندگی ایک ایسا موضوع ہے‘ جس کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے البتہ موبائل فون کے استعمال کو اپنے ”کاروباری مفادات“ کی عینک لگا کر دیکھنے والے اُن حقائق سے پردہ نہیں اُٹھاتے جن کی وجہ سے معاشرے میں انتشار‘ افراق و تفریق‘ بے چینی‘ بے راہ روی‘ نفسیاتی مسائل اور سب سے بڑھ کر بدتمیزی و بدتہذیبی پھیلی ہوئی ہے۔ موبائل فون کو ”سماجی حیثیت (اسٹیٹس سمبل)“ بنا دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ضرورت اور بلاضرورت موبائل فون (ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی) خریدے جاتے ہیں بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت ہر نئے سمارٹ فون کو حاصل کرنے کے لئے اُن سبھی پابندیوں اور حدودکا خیال نہیں رکھتیں‘ جن کا خیال رکھنا چاہئے۔

یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ”فی الوقت“ موبائل فون وقت ضائع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی و سماجی نظام میں موبائل فون رکھنے کی کوئی عمر متعین نہیں اور نہ ہی اِس کے استعمال کو معیوب سمجھا جاتا ہے اِسی طرح موبائل فون کے سوچ سمجھ کر اور حسب ضرورت استعمال کے بارے میں خواندگی و شعور کی سطح پر انتہائی کم ہے۔ اِس صورتحال سے خوبیوں کی بجائے اخلاقی خرابیاں جنم لے رہی ہیں جن کے بارے قومی سطح پر غوروخوض ہونا چاہئے اور موبائل فون استعمال کے رہنما اصول وضع ہونے چاہئیں جن میں موبائل کے استعمال کی نگرانی اُور اِس کے استعمال کے لئے عمر کی حد کا تعین ضروری ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ موبائل فون آپریٹر جس انداز میں ’زندگی آسان‘ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ حقیقت ِحال یہ ہے کہ موبائل فون نے کئی صورتوں میں ’زندگی آسان کی بجائے ناقابل بیان حد تک مشکل‘ بنا رکھی ہے۔