پی ایم سی کی تحلیل‘ پی ایم ڈی سی کی بحالی 

پاکستان میں میڈیکل ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنے والے وفاقی ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن(پی ایم سی) کی تحلیل اور اس کی راکھ پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) کی دوبارہ تعمیر ایسے وقت میں ایک ایسی حکومت کے دور میں ہوئی ہے جو پہلے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہے‘موجودہ وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل جو پاکستان پیپلز پارٹی کے کوٹے سے وفاقی وزیر بنے ہیں اور جن کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے‘ نے پچھلے چند ماہ کے دوران پی ایم سی کے خاتمے اور اس کی جگہ پر پی ایم ڈی سی کی بحالی کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے پیچھے پی ایم سی کے گذشتہ دو سالوں کے دوران کئے جانے والے یک طرفہ اور چھوٹے صوبوں کے مفادات کو پس پشت ڈالنے والے متنازعہ فیصلے رہے ہیں‘جن میں سرفہرست فیصلہ ماضی اور خاص کر اٹھارویں ترمیم کی روح کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے۔

 چاروں صوبوں کے طلباء سے ایم بی بی ایس کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کالجوں میں سنٹرلایئزڈ داخلوں کے علاوہ مرکزی ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ منعقد کرانا تھا؛ یاد رہے کہ پی ایم سی کے اس فیصلے پر صوبہ سندھ، خیبر پختون خوا، بلوچستان اور حتیٰ کہ پنجاب سے بھی احتجاج سامنے آیا تھا لیکن پی ایم سی نے اس احتجاج کو سنی ان سنی کرتے ہوئے نہ صرف سارے ملک کے طلباء سے یکساں نصاب پر مشتمل ایک مرکزی ٹیسٹ لیا تھا بلکہ ایم بی بی ایس میں داخلوں کے لئے پینسٹھ فی صد اور بی ڈی ایس میں داخلوں کے لئے  پچپن فی صد کی شرط بھی عائد کی گئی تھی  جبکہ اب موجودہ حکومت نے اس شرح کو بالترتیب پچپن فی صد اور پینتالیس فی صد کر دیا ہے جس کو ایک بار پھر بعض حلقوں کی جانب سے میرٹ کے خلاف قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جا رہاہے۔

 اسی طرح پی ایم ڈی سی کے وجود میں آنے کے باوجود پی ایم سی چونکہ اس سال کے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے لئے دو لاکھ سے زائد طلباء و طالبات سے فی کس چھ ہزار روپے کے عوض ان کی رجسٹریشن کر چکا ہے‘ اس لئے ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ نیا سیٹ اپ بننے کے بعد ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ گذشتہ سال کے طریقہ کار کے مطابق ملک گیر سطح پر کمپیوٹربیسڈ ہوگایا پھر ماضی کی پریکٹس جب پی ایم ڈی سی بحال تھا اس کے طریقہ کار کے مطابق صوبائی سطح پر ہر صوبہ از خود ٹیسٹ لے گا‘ اس گھمبیر صورتحال نے جہاں لاکھوں طلباء کو ایک عجیب ذہنی کو فت میں مبتلا کر رکھا ہے تو دوسری جانب لاکھوں والدین اورمتعلقہ ادارے بھی اس حوالے سے تذبذب کے شکار ہیں۔ اسی طرح موجودہ حکومت کی جانب سے داخلوں کے لئے میرٹ میں کمی کے حوالے سے حکومتی حلقے تو اس کے متعلق یہ جواز تراش کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی  کوشش کر رہے ہیں کہ گذشتہ سال کے اس سخت فیصلے سے پرایؤیٹ سیکٹر کے بعض میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی نشستیں خالی رہ گئی تھیں جس سے نہ صرف ان کالجز کو مالی خسارے کا سامناکرنا پڑاتھا بلکہ اس سے ملک کا کثیر زرمبادلہ بھی بڑی تعداد میں ہمارے بچوں کی وسط ایشیائی ممالک اور چین کے میڈیکل کالجز میں داخلوں کی صورت میں باہر منتقل ہوا تھا۔

یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے علاوہ دیگر انڈر گریجویٹ پروگرامات میں داخلوں کے لئے تو کے ایم یو اپناٹیسٹ گزشتہ اتوار کو صوبے کے تیرہ مراکز میں منعقد کر چکی ہے جس میں پچیس ہزار سے زائد طلباء وطالبات نے حصہ لیا لیکن آیا وہ طلباء جنہوں نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کے لئے پی ایم سی کے ساتھ گزشتہ دوتین ماہ سے رجسٹریشن کر رکھی ہے ان کے مستقبل کا کیا ہوگا آیا یہ طلباء اب بحال ہونے والے پی ایم ڈی سی کے تحت منعقدہ ٹیسٹ میں شامل ہونگے یا پھر ان کو ایک بار پھر صوبوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے گااور صوبوں میں بھی انہیں کسی ایک متفقہ پیمانے کی بجائے مختلف اداروں اور ان کے الگ الگ پیمانوں پر جانچاجائے گا۔ اسی طرح یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آیا پہلے سے رجسٹرڈ طلباء کی فیسوں کا کیا بنے گا اور آیا ان طلباء کو ایک بار پھر رجسٹریشن کے لمبے چوڑے اور روح فرسا عمل سے گزرنا ہوگا یا پھر ان کی پی ایم سی کے ساتھ رجسٹریشن ہی کو متعلقہ صوبوں کو ٹرانسفر کیا جائے گا‘یہ وہ سوالات ہیں جو گذشتہ کئی ہفتوں سے لاکھوں طلباء اور ان کے والدین کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور کسی بھی جانب سے انہیں نہ تو کوئی تشفی جواب مل رہا ہے اور نہ ہی کسی بھی سطح پر ان کی کوئی شنوائی ہورہی ہے جو ان کے ساتھ یقینا ایک بہت بڑی ناانصافی ہے۔