ایک زبانی امتحان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اُمیدواروں سے پوچھا گیا کہ تم پشاور کوکن حوالوں سے جانتے ہو؟بعض نے کہا گندھاراتہذیب پشاور کا مستند حوالہ ہے،بعض نے کہا پشاور کانام پیشہ ور سے لیا گیا ہے،کسی نے کہا پشاور اصل میں پرش پور تھا جورفتہ رفتہ لوگوں کی زبانوں پرچڑھ کر بگڑتارہا یہاں تک پشاور بن گیا یہ تینوں حوالے تاریخ کی مستند کتابوں سے لئے گئے ہیں جہاں بھی پشاور کانام آتا ہے اس کا ذکر گندھارا کی تہذیب سے شروع ہوتا ہے گندھارا دور کا پشکلاوتی آج کل چارسدہ کہلاتا ہے گندھارا بادشاہت کااودھیانہ آج کل سوات کہلاتا ہے اور اُس زمانے کا پرش پورہی ہمارا پشاور ہے یہ دورتہذیب وثقافت میں صنعت وحرفت اور سنگ تراشی کے لئے دنیا بھر میں شہرت رکھتا تھاعالمی تاریخ میں مصر،ایتھنز، روم،چین اور جاپان کی قدیم تہذیبوں کے ساتھ گندھارا کانام لیا جاتا ہے‘ پشاور کا شہر 539 قبل مسیح سے تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
یہ کشان سلطنت کا مرکز رہا،راجہ کنشکا اس سلطنت کا مشہورحکمران تھا،سلطنتوں کے ساتھ پشاور کے قلعہ بالاحصار کاذکر بھی آتا ہے یہ وہ قلعہ ہے جسے1526عیسوی میں مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے پہلی بارتعمیر کیا،1834میں سکھ سلطنت میں اس کی توسیع اور تعمیر نو ہوئی اس کی تہری حفاظتی دیواریں بابر کے زمانے سے چلی آرہی ہیں ان دیواروں کی وجہ سے اس کانام بالاحصار پڑ گیا1860ء میں انگریزوں نے کچی مٹی کی دیواروں کو پکی سُرخ اینٹوں میں تبدیل کیا جو آج بھی قائم ہے یہ قلعہ 1747ء میں ابدالیوں کا پایہ تخت بنا شاہ شجاع اور درانی سرداروں نے یہاں سے کابل پرحکومت کی پھر یہ قلعہ سکھوں کا پایہ تخت بنا سکھوں کی حکومت میں بھی کابل پشاور کے ماتحت رہا،اس طرح کم وبیش 700برسوں سے قلعہ بالاحصار پشاور کی پیشانی کاجھومر چلاآرہا ہے اور اس کا شمار جنوبی ایشیا کے قدیم قلعوں میں ہوتا ہے جغرافیہ کے ماہرین پشاورکو”وادی پشاور“کے نام سے یاد کرتے ہیں اس وادی میں ہشت نگر کی زرخیز وشاداب زمینوں کا چرچاہے۔
گنے،تمباکو اور چقندر کی نقدآور فصلوں کی شہرت ہے‘ دریائے سوات اور دریائے چترال کے پانی سے سیراب ہونے والی فصلوں میں گندم،جوار،دھان بھی مشہور ہیں‘ باغات کی بھی شہرت ہے۔ترناب کا زرعی فارم بھی بیسویں صدی میں پشاور کا معتبر حوالہ بن چکا ہے مگران تمام حوالوں سے بڑا اسلامیہ کالج اور ایڈورڈزکالج کا علمی مقام ہے پشاور کے دونوں تعلیمی اداروں نے صوبے کی بے مثال خدمت کی ہے۔اسی طرح کا حوالہ مسجد مہابت خان بھی ہے یہ مسجد مغل دور کی اہم تعمیرات میں شمار ہوتی ہے جسے مغل گورنر مہابت خان نے 1630عیسوی میں تعمیر کیا۔مہابت خان پشاور کی ایک ممتاز شخصیت علی مردان خان کابیٹا تھا جس کی حویلی میں آج کا گورنر ہاوس قائم ہے پشاور کا ایک اہم حوالہ ہندکو زبان بھی ہے‘اردو میں دل پشوری کی ترکیب ہندکو سے آئی ہے اس کا مطلب ہے جی بہلانا خوشی منانا،یاری نبھانا،یہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے کالم کا سِرنامہ تھا۔ہندکوان پشاور کی قدیم آبادی سے تعلق رکھتے ہیں وہ پشاور کو”پشور“کہتے ہیں،جبکہ اطراف کے لوگ پشاور کو شہریاخار بولتے ہیں‘پشتو کے یوسفزی لہجے میں شین کو خابولا جاتا ہے جیسے اوش کو اوخ،پشتون کو پختون‘پشاور کے بیشمار حوالے اور بھی ہیں تاہم کالم کا دامن تنگ ہے۔