رعایت و راحت کا خاتمہ

بجلی صارفین پر شاید یہ خبر بجلی بن کر گرے کہ یوٹیلیٹی بلوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور نئی حکمت عملی کے تحت کم یا زیادہ بجلی خرچ کرنے والوں کے درمیان فرق ختم کرتے ہوئے بجلی کی بنیادی قیمت تمام صارفین پر یکساں لاگو کر دی گئی ہے‘ ذہن نشین رہے کہ ماضی میں کم بجلی استعمال کرنے والوں کو فی یونٹ کم قیمت ادا کرنا پڑتی تھی اور بجلی کے بل مختلف درجات (سلیب) میں تقسیم ہوتے تھے‘ جس میں ہر سلیب کے بجلی صارفین کے لئے فی یونٹ کی قیمت الگ الگ ہوتی تھی اور جو صارف بجلی کے زیادہ یونٹ خرچ کرتا تھا اُسے فی یونٹ کی قیمت بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی تھی لیکن اب صورتحال قطعی مختلف ہے۔ بجلی صارفین کے لئے فی یونٹ بجلی کی قیمت یکساں کئے جانے سے اُن صارفین کو آنے والے دنوں میں زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا جنہوں نے ماضی کی رعایت سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے گھروں اور کاروباری مراکز پر ایک سے زیادہ بجلی کے میٹر نصب کر رکھے ہیں تاکہ اُن کے بجلی یونٹ دو یا تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں اور اِس طرح اُنہیں کچھ رعایت بصورت راحت حاصل ہو جو بجلی بلوں کے نئے طریقہئ کار سے تبدیل ہو گئی ہے۔

نئی حکمت عملی کے تحت کسی بھی صارف (گھریلو یا صنعتی) کے لئے استعمال شدہ بجلی یونٹوں کی بنیاد پر یکساں قیمت لاگو ہوگی اور اب پہلے اور آخری سلیب کے بجلی بلوں میں یونٹ کی قیمت ایک جیسی ہوگی چونکہ حکومت نے بجلی کی قیمت اور ماہانہ بلوں کے اِس نئے طریقہئ کار کے حوالے سے کوئی وضاحتی یا اطلاعیہ بیان جاری نہیں کیا اِس وجہ سے ماہئ اگست میں غیر معمولی طور پر زیادہ بجلی کے بل موصول ہونے پر صارفین حیرت زدہ تھے‘ جن کی رہنمائی اور معلومات کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ بجلی کی ایک جیسی قیمت کا نفاذ ’عالمی مالیاتی اِدارے‘ کی جانب سے عائد شرائط کا حصہ ہے جس میں وفاقی حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس آمدنی بڑھانے کا آسان ذریعہ یہی ہے کہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں سے مزید ٹیکس وصول کئے جائیں اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کر کے آمدنی کا ہدف حاصل کیا جائے۔ 

ایک ایسی صورتحال میں جبکہ کورونا وباء کے بعد خیبرپختونخوا اور ملکی معیشت و معاشرت شدید دباؤ میں ہے تو ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ بجلی و گیس سمیت جملہ بنیادی ضروریات کی قیمتوں کو آمدنی کے لحاظ سے طبقات پر لاگو کیا جائے۔ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا کسی بھی صورت مناسب نہیں جبکہ یہ اقدام سراسر ظلم اور زیادتی بھی ہے کہ گھریلو (رہائشی) لائف لائن صارفین کو ملنے والی رعایت (سلیب) کا فائدہ بھی بنا اعلان واپس لے لیا گیا ہے اور آئندہ بجلی بل اگر نئی حکمت عملی کے تحت جاری ہوں گے تو اِس سے غریب و کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے لئے مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے سے بجلی کی چوری کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اِس حقیقت کا تذکرہ خود حکومتی رپورٹ میں دیئے گئے اعدادوشمار میں بھی ملتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا گردشی قرض 536 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور یہ 536 ارب روپے بجلی کی قیمت اور اِس پر عائد مختلف محصولات کی شرح میں اضافہ کرنے کے بعد بھی اگر اِس قدر ہے تو عمومی حالات میں اِس خسارے کے قومی خزانے پر بوجھ کا تصور کرنا قطعی مشکل نہیں ہے۔