راحتیں اور بھی ہیں 

نیکی کا کام کر کے جو راحت ملتی ہے اس کا تو نعم البدل ہی کوئی نہیں جو سکون اس عمل میں پوشیدہ ہے اس کا تو جواب ہی نہیں‘یونان کے مفکر سینیکا کا قول ہے کہ نیکی کرنے کے فوراً بعد جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہی اس نیک عمل کا انعام ہوتا ہے آج کل سیلاب کی بد ترین صورتِ حال کے شکارگھرانوں کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ اس سلسلے میں جو لوگ ذاتی طور پر یا اپنی تنظیم کے طور پر ان شہریوں کی آبادکاری کا بندوبست کر رہے ہیں ان کے عمل کا جواب نہیں‘اعلانیہ او رخفیہ دونوں طریقوں سے وہ نیک انسان سیلاب زدگان کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں‘ہمارے دوست پروفیسر عمران وردگ اپنی ان سرگرمیوں میں مصروف ہیں خدا ان کو جیتا رکھے ان کے علاوہ ہمارے اور دوست بھائی بھی ہیں جو خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہیں اور مصیبت زدگان کی بھلائی کیلئے تہہ ِ دل سے جُتے ہوئے ہیں یہ اعمال تو ضائع نہیں جاتے‘نیکی کر کے بعض لوگوں کو خوشی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کو زیادہ راحت نصیب ہوتی ہے یہ خوشی کیا کم ہے کہ میں دنیا میں جیتے جی کسی کے کام آیا ہوں۔

دنیا ہی میں کسی کے کام اگر آ جائیں تو درست ورنہ تو دوسری دنیا میں کوئی کسی کے کام نہیں آنیوالا‘اب خدمتِ خلق کی بہت صورتیں ہیں کوئی کسی کے گھر راشن ڈالتا ہے یہ بھی بڑے ثواب کا کام ہے  جس میں بہت سے لوگ چھپ چھپا کر کام کرتے ہیں گلی محلوں میں تنظیمیں ہیں جو اپنے علاقہ میں نادار لوگوں کو جانتی ہیں اور ان کی خدمت کے لئے ہمہ وقت مصروف  ہیں۔کسی کے قرضے کو اپنی جیب سے  خلاص کروادینا بہت بڑی نیکی ہے ”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر۔ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“ایک اور شعر عرض ہے ”ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے۔جو کام آتے ہیں دوسروں کے“ پھر یہ بھی کہ ”اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں۔ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا“ اپنی سی زندگی جی کر دوسری دنیا کی زندگی کے لئے رخصت ہوجانابھی کیا زندگی ہے۔

کیوں نہ کسی کے کام آیا جائے۔کیونکہ یہی انسانیت کا مقصد ہے ”دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں“ ”اقبال نے فرمایا ”خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا“۔بن کا مطلب ویرانہ ہے۔رات کو آٹھ بجے مجھے فون آیا کہ تین بیگ خون کی ضرورت ہے جو ابھی جمع کروانے ہیں۔کیونکہ مریض کے دل کے تین وال بند ہیں او رڈاکٹر نے صبح آٹھ بجے آپریشن کرنا ہے۔ہنگامی صورتِ حال میں شہر کے معروف ہسپتال میں جانا تھا۔ اس وقت رات کو چار بندوں کو اکٹھا کرنا بہت مشکل تھامجھے کچھ اور نہ سوجھا۔میں نے گھر میں اپنے ہی بندوں کوٹٹولا۔

 اپنی بیٹی اور داماد کا او راس کے ساتھ کراچی سے آئی ہوئی بھابھی کاانتخاب کیا گاڑی میں بیٹھے اور سیدھا ہسپتال کا رخ کیا۔جنہوں نے پہلی بار خون نہ دیا ہو ان میں سے اکثر لوگ خون دینے سے ڈرتے ہیں‘میری بھابھی کا کہنا تھاکہ انسان ایک بھلاکام کرنے کی ٹھان لے تو اس کو کوئی خوف نہیں رہتا۔ہم قافلے کی صورت میں ہسپتال جا پہنچے۔خون کے ٹیسٹ ہوئے‘رات کا ایک بج گیااس دوران تین بیگ خون دے دیا گیا۔ ہمارے وہ دوست بہت خوش تھے بہت شکریہ ادا کررہے تھے۔ مگر میں نے کہا سر جی یہ آپ پر کوئی احسان نہیں یہ ہمارا کام ہے۔آپ نہ ہوتے کوئی اور ہوتا جس کو ہم جانتے تک نہ ہوں مگر ہم نے اس کے لئے بھی یہ کام کرنا تھا  یہ تو خون دینے والے کا اور اللہ کاآپس کا معاملہ ہے۔