نیرنگی سیاست

اگر پاکستان کو روسی گیس کی فراہمی ممکن ہو جاتی ہے اور اسی طرح ہم پٹرول بھی روس سے درآمد کرنا شروع کر دیتے ہیں تو کافی حد تک ہماری معیشت سنبھل سکتی ہے اب دیکھتے ہیں اس ضمن میں وزیراعظم اور روسی صدر کی حالیہ ملاقات کیا رنگ لاتی ہے‘ نیرنگی سیاست کا بھی یہاں ذرا ذکر ہو جائے تو  بے جا نہ ہوگا کسی زمانے میں سوویت یونین اور چین  باوجود اس حقیقت کے کہ وہ دونوں کمیونسٹ ممالک ہیں اس قدر یک جان دو قالب نہ تھے کہ جتنے وہ آج ہو چکے ہیں امریکہ کو روسی صدر پیوٹن کے اس حالیہ بیان پر ضرور پریشانی ہوئی ہو گی کہ روس چین کے اصول پر کاربند ہے  روسی صدر  نے آبنائے تائیوان میں امریکی اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے عالمی سیاست رنگ بدلتی ہے کسی دور میں سوویت یونین  اور پاکستان کی راہیں جدا جدا ہوا کرتی تھیں‘آج یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں دور حاضر میں اگر کوئی لیڈر امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے تو وہ روسی صدر پیوٹن ہی ہے۔ اگلے روز راولپنڈی ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران بجا کہا ہے کہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا پر پابندی لگانا ضروری ہے کیونکہ جس کا دل کرتا ہے سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کے خلاف باتیں شروع کر دیتا ہے آئین میں بلا شبہ  اظہار رائے کی آزادی ہے مگر ملکی سلامتی دوست ممالک سے تعلقات اور حساس معاملات پر باتیں درست نہیں اس جملہ معترضہ کے بعد ذرا ذکر ہو جائے کے پی کی حکومت کے اس فیصلے کا کہ  جس کے تحت دریاؤں‘نہروں اور ندی  نالوں کے کنارے تجاوزات کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان احکامات پر کب اور کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے کیونکہ شنید یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس قسم کی تجاوزات کھڑی کی ہوئی ہیں ان کے سیاسی طور پر ہاتھ بہت لمبے ہیں‘کے پی کی حکومت کا یہ اقدام بھی قابل ستائش ہے کہ جس کے تحت صوبے میں اپنی نوعیت کاپہلا انصاف ایجوکیشن کارڈ متعارف کیا گیا ہے کہ جس سے ابتدائی طور پر صوبے بھر کے دولاکھ 44ہزار طلبہ مستفیدہوں گے۔اس ملک کے ارباب اقتدار میں بعض ایسی شخصیات بھی گزری ہیں کہ جن کے بارے میں اس ملک کی نئی نسل کو ان کی اعلیٰ اخلاقی کردار سے روشناس کرانا از حد ضروری ہے ان میں یقیناً غلام اسحق خان کا نام سر فہرست ہے ایک لمبے عرصے تک انہوں نے سرکاری ملازمت بھی کی اور نہایت اہم کلیدی عہدوں پر فائز بھی رہے‘ وہ  مالی طور ہر ایک مڈل کلاس فیملی میں پیداہوئے‘ اپنی محنت قابلیت اور محنت شاقہ سے ملک کے اہم ترین مناصب یعنی کہ سینٹ کے چیئرمین اور صدر پاکستان جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ان کا کوئی بھی قدم یا فیصلہ ملکی قوانین کے خلاف نہ ہوتا‘ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ ان کا بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ بعض امور پر اختلاف رہا‘تاہم اس میں ان کا کوئی ذاتی عناد نہیں تھا وہ طاقتورکے سامنے سچ بولتے‘جس کام کو درست تصور کرتے اسے کر گزرتے‘ان کے چہرے پر کوئی نقاب نہ تھا‘وہ سیاستدان نہیں تھے ان کی دیانت اور ایمانداری کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی وہ منصف مزاج اور با اصول تھے‘صوابی میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ ان کے نام سے منسوب ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں آنے والا ایسا کوئی نہیں کہ جس کا کوئی متبادل نہ ہو‘تاہم شاعرمشرق علامہ اقبال کے شعرکا یہ مصرع غلام اسحاق خان جیسے لوگوں پرہی صادق آتا ہے۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا