بھارت اور امریکہ کی جانب سے مبینہ جاسوسی کی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات کے باوجود ایک چینی بحری جہاز کاگزشتہ دنوں سری لنکا کی چین کے زیر انتظام بندرگاہ ہمبنٹوٹا پر لنگر انداز ہونے کے خلاف جہاں بھارت اور امریکہ کی جانب سے تحفظات کااظہار کیاجارہا ہے وہاں بین الاقوامی سطح پر اس تنقید کو امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ دنوں میں تائیوان کے ایشو پر پیدا ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ یوآن وانگ 5 نامی چینی بحری جہازکوسری لنکا کے پانیوں میں داخل ہونے کی اجازت ا اس شرط پر دی گئی کہ وہ یہاں کسی قسم کی جنگی یاتحقیقی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔اس جہاز نے اصل میں یہاں گزشتہ ہفتے پہنچنا تھا لیکن کولمبو نے بیجنگ سے کہا تھاکہ وہ بھارت کے اعتراضات کے بعدیہ دورہ ملتوی کرے جس سے خطے میں چینی سرگرمیوں کے بارے میں مغربی خدشات کوتقویت ملتی ہے لیکن بعدازاں گفت و شنید کے بعد سری لنکا نے اس چینی بحری جہاز کو اپنی جنوبی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے اور ایندھن بھرنے اور دیگر سامان لے جانے کی اجازت دے دی تھی جس پر نہ صرف نئی دہلی نے کولمبو کے پاس باقاعدہ شکایت درج کرائی بلکہ واشنگٹن نے اس پر سیکورٹی خدشات کااظہار بھی کیا۔دریں اثنا سری لنکا کے حکومتی ترجمان بندولا گناوردانہ نے صحافیوں کو بتایاکہ ہم چینی جہاز کو وہی سہولیات دے رہے ہیں جو ہم دوسرے تمام ممالک کو بھی دیتے ہیں اوریہ تمام ممالک ہمارے لیے اہم ہیں جب کہ سری لنکا میں چین کے سفیر کیو ژین ہونگ نے کہاہے کہ یوآن وانگ 5 کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تبادلوں کا حصہ ہے، چین اور سری لنکا کے درمیان شاندار دوستی ہے اور اس دوستی پر کسی دوسرے ملک کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔یادرہے کہ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ 2017 سے چین کے زیرانتظام ہے جسے چین نے 1.12 بلین ڈالرکے عوض 99 سالہ لیز پر حاصل کررکھاہے۔دوسری جانب یہ بات اہم ہے کہ شپنگ اینالیٹکس نامی ویب سائٹ نے یوآن وانگ 5 کو تحقیق اور سروے کرنے والا جہاز قرار دیا ہے لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق یہ دوہری استعمال کرنے والا جاسوس جہاز ہی حالانکہ روایات کے برعکس اس جہاز کے استقبال کے لیے کوئی روایتی فوجی بینڈ نہیں تھاالبتہ روایتی رقاصوں اور ڈرمروں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے سرخ قالین پر پرفارم کرکے اس کا استقبال کیا۔اسی طرح گودی کے کنارے کئی قانون ساز بھی موجود تھے لیکن وہاں کوئی سینئر سیاستدان یا دیگر معززین موجود نہیں تھے۔یہاں یہ امربھی قابل توجہ ہے کہ نئی دہلی کو بحر ہند میں بیجنگ کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور سری لنکا میں اثر و
رسوخ پر نہ صرف اعتراض ہے بلکہ وہ اس میں روڑے اٹکانے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے دراصل یہ دونوں پڑوسی مگر حریف ممالک بحر ہند کو کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کے خواہاں ہیں۔ چین نے بھارت کی جانب سے سری لنکا پر دبا ڈالنے کے اقدام اور اس حوالے سیسیکیورٹی خدشات کے اظہار کومکمل طور پر غیر منصفانہ قراردیا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب سری لنکا غیر معمولی اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اس صورتحال پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاز کی سرگرمیاں بین الاقوامی قانون اور طرز عمل کے مطابق تھیں اور یہ کسی بھی ملک کی سلامتی یا اقتصادی مفادات کو متاثر نہیں کرتی ہیں لہذا اس پر کسی تیسرے فریق کواعتراض نہیں ہونا چاہئے۔بحر ہند میں چین کے ایک جدید تحقیقاتی بحری جہاز کے سری لنکا کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کے معاملے پر چین اور امریکہ کے درمیان تند وتیز جملوں کاتبادلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک جانب روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ کی شدت میں کمی یا اس جنگ کے خاتمے کے آثار نمایاں ہونے کی بجائے اس جنگ کی صورتحال دن بدن مذید گھمبیر اور پیچیدہ ہوتی جارہی ہے جب کہ دوسری جانب بحر الکاہل کے خطے میں پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ جاپان،آسٹریلیا اور بھارت کو ساتھ ملا کر جس طرح چین کو گھیرنے کی کوشش
کررہاہے اس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں امریکہ کی جانب پہلے امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے غیر اعلانیہ اور اچانک دورے کے بعد امریکہ کے پانچ رکنی کانگریسی وفدکایہاں پہنچ کر چین کواشتعال دلانے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے جس پر چین نے بھی حسب توقع اپنا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے جہاں امریکہ کو متنبہ کیاہے کہ وہ تائیوان کو امریکی اسلحہ کی فراہمی اور تائیوان میں امریکی مداخلت کوبرداشت نہیں کرے گا وہاں چین نے اس موقع پر آبنائے تائیوان میں ایک بڑی جنگی مشق کے اعلان اور ا س خطے میں میزائل تجربات کے ذریعے بھی امریکہ اور مغربی دنیا کوایک واضح پیغام دیا ہے کہ تائیوان میں امریکی مداخلت چین کی ریڈ لائین ہے اور وہ اس ضمن میں مذید کسی صبروتحمل سے کام نہیں لے گااور اگر ضرورت پڑی تو چین اس حوالے سے طاقت کے براہ راست استعمال سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔لہذااس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری مہذب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ درحقیقت اس وقت جب ساری دنیا کوکوویڈ19اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عوامل کی وجہ سے شدید ترین اقتصادی بحران کاسامنا ہے توایسے میں بڑی طاقتوں کونہ صرف کسی نئی محاذ آرائی سے گریز کی ضرورت ہے بلکہ انہیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرناچاہیے کہ دنیاکے کسی نئی سرد جنگ کی طرف بڑھنے سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ ایساکرناپوری انسانیت کے لیئے سراسر خسارے اورگھاٹے کاسودا ہوگا۔