پولیو خطرہ

انسداد پولیو کی کوششیں  اگر چہ تیزی سے جاری ہیں اور اس سلسلے میں کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے تاہم اب بھی کیسز کا سامنے آنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے اور صرف دیہی و قبائلی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ ملک میں شہری آبادی کے مراکز میں بھی پولیو کے قطرے پلانے سے انکار ی والدین اب بھی موجود ہیں۔ رواں سال اگست میں (حالیہ) پولیو مہم کے دوران لاہور سے قریب بارہ ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔ بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ دنیا جس پولیو مرض کو شکست دے چکی ہے پاکستان اُسی کے خلاف جنگ کئی محاذوں پر ہار رہا ہے اور پولیو کے کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال کم از کم سترہ پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے صرف اُن دو ممالک میں ہو رہا ہے جہاں پولیو کا وبائی مرض موجود ہے۔ پاکستان کے علاوہ پولیو افغانستان میں پایا جاتا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغانستان سے  نقل مکانی کرنے والے  افراد کی آمد کے باعث پولیو کے خلاف مہمات ناکام ہو رہی ہیں۔ اگر پاکستان یہ چاہتا ہے کہ دنیا اُس کے لئے اپنی سرحدیں بند نہ کرے تو اِسے افغانستان کے ساتھ آمد و رفت کے حوالے سے محتاط ہونا پڑیگا۔رواں برس (ماہ اگست) کے دوران صوبہ پنجاب میں پولیو مہم شروع کی گئی اور اِس دوران اُن بچوں تک پہنچنا تھا جو پہلے پولیو ویکسین لگوا چکے ہیں یا جن کے کوائف تو موجود ہیں لیکن وہ اِس سے قبل پولیو مہم کے دوران ویکسین نہیں لگوا سکے۔ ایسے بچوں تک رسائی کی کوشش ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئی ہے! وفاقی محکمہئ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ”دو ماہ سے کم عمر کے 10 ہزار 949 بچوں کو ویکسین نہیں لگائی گئی جن میں تین سے چھ ماہ عمر کے 755 بچے شامل ہیں جبکہ سات ماہ سے ایک سال کی عمر کے 423بچوں کو بھی ویکسین نہیں لگائی جا سکی جو انہیں اس بیماری سے بچا سکتی تھی۔ پولیو زندگی بھر کی معذوری کا دوسرا نام ہے اور ہزاروں کی تعداد میں بچوں کا انسداد پولیو ادویات کا نہ لینا انتہائی مایوس کن صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے جس سے عیاں ہے کہ پاکستان کو اپنے ہاں انسداد پولیو کے لئے جس قدر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے‘ یہ اُس قدر بڑے پیمانے پر جدوجہد نہیں کر پا رہا۔ وفاقی ادارہئ صحت کے علاوہ پنجاب حکومت کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پولیو کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ لاہور میں گزشتہ سال بھی انسداد پولیو مہمات سے کئی بچے رہ گئے تھے اور تب ایسے بچوں کی تعداد 33 ہزار 860 تھی! انسداد پولیو سے محروم بچوں سے متعلق اعداد و شمار اِس لئے بھی تشویشناک ہیں کیونکہ اِن میں خاطرخواہ کمی نہیں آ رہی۔ پولیو جرثومہ ’پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو نسبتاً زیادہ متاثر کرتا ہے‘ حالانکہ دیگر بچوں کو بھی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے یہ مرض لاحق ہونے کا امکان رہتا ہے اور وہ زندگی بھر کے لئے معذور ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ خیبرپختونخوا ہو یا پنجاب‘ انسداد پولیو مہمات میں بچوں تک رسائی کے طریقہئ کار پر نظرثانی کرتے ہوئے اُن موجود خامیوں کا جائزہ لیا جائے اور اصلاح احوال کی کوشش کی جائے۔