اچھی پیشرفت

یہ ایک بہت اچھی پیش رفت ہے کہ روس کے صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ پاکستان کو روس سے پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی ممکن ہے کیونکہ اس کے لیے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ پہلے سے ہی موجود ہے۔روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کے مطابق صدر پوٹن نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ  روز ازبکستان کے سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا۔اس موقع پروزیر اعظم نے پاکستان کے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان فوڈ سکیورٹی، تجارت اور سرمایہ کاری، توانائی، دفاع اور سکیورٹی سمیت باہمی مفادات کے تمام شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دی جاسکے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے بین الحکومتی کمیشن کا اگلا اجلاس اسلام آباد میں جلد از جلد طلب کرنے پر بھی اتفاق کیا۔طویل عرصے سے تاخیر کا شکار گیس پائپ لائن ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ پاکستان گیس اسٹریم گیس پروجیکٹ، جسے نارتھ۔ ساؤتھ گیس پائپ لائن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، روسی کمپنیوں کے تعاون سے تعمیر کیا جانا ہے۔دونوں ملکوں نے 2015 میں بحیرہ عرب کے ساحل پر کراچی سے درآمد شدہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی)کو بجلی گھروں تک پہنچانے کے لیے 1100 کلومیٹرطویل پائپ لائن تیار کرنے پراتفاق کیا تھا۔منصوبے کے مطابق پائپ لائن کی سالانہ گنجائش 12.4 بلین کیوبک میٹر ہے، جس میں 16بلین کیوبک میٹر اضافے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔وزیراعظم نے افغانستان میں روس کے تعمیری کردار کی تعریف کی اور ہمسایہ ملک میں استحکام کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کوشش کے حوالے سے پاکستان کا عزم دہرایا۔یہ منصوبہ2020 میں شروع ہونا تھا، لیکن اس وقت تاخیر کا شکار ہوگیا جب روس کو مغربی پابندیوں کی وجہ سے ابتدائی شراکت دار کو تبدیل کر دینا پڑا۔وزیراعظم نے افغانستان میں روس کے تعمیری کردار کی تعریف کی اور ہمسایہ ملک میں استحکام کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کوشش کے حوالے سے پاکستان کا عزم دہرایا۔اگر پاکستان کو روسی گیس کی فراہمی ممکن ہو جاتی ہے اور اسی طرح ہم پٹرول بھی روس سے درآمد کرنا شروع کر دیتے ہیں تو کافی حد تک ہماری معیشت سنبھل سکتی ہے اب دیکھتے ہیں اس ضمن  عملی اقدامات کب اور کتنی تیزی سے اٹھائے جاتے ہیں۔پاکستان اور روس کے درمیان معاشی تعلقات استوار ہونے کی صورت میں نہ صرف دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر مرتب ہونگے۔