اقوام متحدہ کا یہ بڑا صائب فیصلہ ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود برف کے تودوں کی گلیشیر مییپنگ کروائی جائے کہ جن کی تعداد پانچ ہزار ہے اور جو درجہ حرارت میں پگھل کر جھیل کا روپ اختیار کرتے ہیں اور سیلابوں کا موجب بنتے ہیں ایک ایسے نظام کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے پگھلنے کی رفتار کو معلوم کر کے سیلابوں سے بچنے کے واسطے مناسب انتظام کیا جا سکے اور اس حوالے سے پیشگی اطلاع دی جا سکے۔ شنید ہے کہ اگلے 18ماہ میں یہ میپنگ کی جائے گی۔ یاد رہے کہ وطن عزیز میں دنیا کے سب سے زیادہ گلیشئر موجود ہیں جو مستقبل میں بھی اسی قسم کی سیلابی تباہ کاری کا موجب بن سکتے ہیں۔ اب ایک اور سنگین مسئلے کی طرف آتے ہیں جہاں بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابقموسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ترقی پذیر ممالک غذائی قلت سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔کلائیمٹ چینج میں ان کا عمل دخل سب سے کم ہے لیکن ان ممالک میں عوام کو شدید قحط سالی کا سامنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا میں خوارک کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔غیر سرکاری برطانوی تنظیم آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان، برکینا فاسو، جبوتی، گوئٹے مالا، ہیٹی، کینیا، مڈغاسکر، نائجر، صومالیہ اور زمبابوے میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران غذائی بحران کے تناسب میں 123 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔یہ وہ دس ممالک ہیں، جن کی جانب سے کلائیمٹ چینج کے باعث اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ امداد کی اپیلیں موصول ہوئی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں 48 ملین افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، 2018 میں یہ تعداد 21 ملین تھی۔آکسفیم کی بین الاقوامی سربراہ گیبریلا بوچر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک بم کی مانند ہے اور یہ ہماری آنکھوں کے سامنے تباہی پھیلا نے میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں شدید موسم جیسے خشک سالی، طوفان اور سیلاب کا باعث بن رہی ہیں۔ ایسے واقعات پچھلے 50 سالوں میں پانچ گنا بڑھ چکے ہیں اور اب یہ زیادہ جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔آکسفیم کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والی یہ صورتحال عالمی عدم مساوات کا نمونہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے کم آلودگی والے ممالک خشک سالی، سیلاب اور دیگر شدید موسمیاتی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔بوچر کا کہناہے کہ مغربی ممالک متاثرہ ممالک میں وسائل کی بحالی کے لئے ان کے قرض معاف کر سکتے ہیں اور ہمیں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلوں سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نمٹنے کے لئے ان ممالک کو ادائیگیوں میں بھی مدد کرنی چاہئے۔بوچر کا مزید کہنا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں بہتری کے لئے اقدامات اور وہاں ہونے والے نقصان کے لئے ادائیگی کرنا ہوگی۔
ساتھ ہی ساتھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں کی جانے والی اپیل کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر فنڈز مہیا کرنے کو یقینی بنانا ہوگا۔رواں سال اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت کی جانے والی امدادی اپیل 49 بلین ڈالر ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق اگر گزشتہ پچاس سالوں میں فوسل فیول بنانے والی کمپنیوں کے یومیہ اوسط منافع کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ان کے اٹھارہ دنوں کے منافع سے بھی کم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے شاید سب سے زیادہ اور سب سے پہلے متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے اس لئے اگر بین الاقوامی ادارے اور ممالک احساس کریں تو اس سلسلے میں پاکستان کی مددکرنا ان پر لازم ہے۔
آج اسوج کی 5تاریخ ہے، بھادوں اور ساون کب کا گزر چکا پر حبس اب تک ختم نہیں ہو رہی اور اگلے روز تو امریکہ کے سائنس دانوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں مون سون کی بارشیں رواں ماہ کے اواخر تک ہوتی رہیں گی۔ اسے کہتے ہیں کلائمیٹ چینج وزیر اعظم صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا خمیازہ بھگت رہا ہے اور کل کوئی اور ملک بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ سربراہی اجلاس میں اس تنظیم کے رکن ممالک کے لئے یورو کی طرز پر ایک کرنسی کی تجویز کے اطلاق سے رکن ممالک کی تجارت میں یقینا اضافہ ہو گا ماہ رواں میں وزیراعظم پاکستان کا اقوام متحدہ کا دورہ ان کو ایک بڑا موقع فراہم کرے گا کہ وہ دنیا کے تمام ممالک کے سربراہان سے بنفس نفیس مل کر ان کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے روشناس کرائیں اور اس نازک گھڑی میں پاکستان کی کھل کر مالی امداد کرنے کا احساس دلائیں اس لحاظ سے ان کا امریکہ کا یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔
وزیر اعظم کا یہ فیصلہ بھی صائب فیصلہ ہے کہ وہ عنقریب روس اور چین کا بھی دورہ کریں گے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کلیدی اہمیت دینا ہوگی اور چین کے ساتھ پہلے سے موجود سٹریٹیجک تعلقا ت کو مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ بھی قریبی تعلق رکھنا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا میں معاشی بحران ہے اور ممالک کی کوشش ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تجارت اور معیشت کی روشنی میں تعلقات استوار کریں۔ پاکستان کو بھی اب اس اصول پرعمل پیرا ہونا پڑیگا۔