رشوت اور عوام 

ایک خبر نظر سے گذری،خبر میں رشوت عام ہونے کے حوالے سے لکھا گیا ہے تاہم عمومی طور پر رشوت کا الزام صرف لینے والے پر لگا یا جا تا ہے، دینے والے کا ذکر نہیں ہو تا اسلا می تعلیمات میں اس کی پوری صراحت مو جود ہے قرآن پا ک میں عوام النا س اور مسلما نوں کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ تم کسی کی حق تلفی کے لئے حکام کے پاس مت جاؤ تا کہ حکام کی ہمدردی حا صل کر کے کسی دوسرے کا مال ہضم کر سکو، حدیث شریف میں آیا ہے کہ رشوت لینے والا بھی اور رشوت دینے والا بھی دونوں دوزخی ہیں دونوں کا ٹھکا نہ آگ اور جہنم ہے رشوت ایک لین دین ہے جس میں دو فریق ہو تے ہیں یہ ایک قسم کی تا لی ہے جو دو ہا تھوں سے بجتی ہے،  ہمارے ایک شناسا آ فیسر نے بھری مجلس میں بتا یا کہ دفتری نظام میں زیادہ تر رشوت عوام کی وجہ سے آتی ہے کوئی افسر یا ما تحت اہلکار مفت میں کسی کا کام کر دے تو اس کو یقین نہیں آتا وہ کا غذ کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے کہ یہ حکم جعلی تو نہیں؟ اصلی حکم رشوت کے بغیر کس طرح ہاتھ آیا؟

 عوام کی بے صبری، پریشانی اور جلد بازی نے دفتروں کا پورا نظام متا ثر کر دیا ہے عوام کا مزاج اس طرح بن گیا ہے کہ معمو لی کام کو بھی دفتری طریقہ کار سے انجام دینے کا انتظار نہیں کرتے۔لفافے جیب میں رکھ کر دفاتر کے چکر لگا تے ہیں اور فائل کو پہیہ لگاتے ہیں اگر عوام دفاتر کے چکر نہ لگائیں تو ہر کام قاعدہ اور قانون کے تحت انجام پا ئے گا ہو سکتا ہے اس میں چند دن لگ جائیں مگر کام رکے گا نہیں، مسترد نہیں ہو گا عوام کو دفتروں میں جا نے سے منع کیا جا ئے تو وہ آفیسروں اور ماتحت اہلکا روں کے گھروں اور رشتہ داروں کا پتہ کر تے ہیں، لفا فہ لیکر وہاں پہنچ جا تے ہیں اور رشوت دیکر اپنا کام جلدی کرانے کی کو شش کرتے ہیں۔ تجربہ کار لو گوں کی نپی تلی رائے ہے کہ عوام رشوت دینے سے تو بہ کریں تو دفاتر سے رشوت کے نا سور کا خا تمہ ہو سکتا ہے۔خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکرٹری  عبد اللہ مرحوم نے ایک بار ملا قات کے لئے آنے والے عوامی جر گے کو بتا یا کہ ٓافیسروں کا مزاج تم لو گوں نے خراب کر دیا ہے۔ 

تم ان کو سر پر چڑھا لیتے ہو، دعوتیں کر تے ہو ، شکا ر پر لے جا تے ہو، قیمتی تحا ئف لا کر ڈھیر کر دیتے ہو اور کام پیش آنے پر نقد رشوت بھی پیش کر تے ہو پھر با ہر نکل کر شکا یت کر تے ہو کہ رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا اگر تم لو گ نا جا ئز خوا ہشات کی تکمیل کے لئے رشوت لیکر دفتروں کے چکر نہیں لگا ؤ گے تو کوئی بڑا یا چھو ٹا اہلکار تمہارے گھر آکر تم سے رشوت نہیں مانگے گا، رشوت کا بازار دفتر والوں نے گر م نہیں کیا، یہ بازار عوام نے خود گرم کیا ہوا ہے۔ان کی اس بات میں بھی وزن ہے۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی یہ پکا ارادہ کرلے کہ وہ اپنا کوئی بھی کام رشوت دے کر نہیں نکالے گا اور نہ ہی وقت سے پہلے کام نکالنے کی کوشش کریگا بلکہ جو وقت اور مدت اس کیلئے مقرر ہے اس تک انتظار کریگا تو کوئی وجہ نہیں کہ رشوت کا خاتمہ نہ ہو۔ 

ہم تو اپنے آپ کو قطار سے بچانے کیلئے بھی رشوت دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ رشوت کی برائی کا سراسر الزام عوام پر ڈالا جائے تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس کو ختم کرنے میں عوام کا کردار اہم ہے۔جس طرح معاشرے میں کوئی تبدیلی عوام کے رویوں میں تبدیلی کے بغیر نہیں آسکتی اس طرح رشوت اور دیگر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے ہمیں رویوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے اگر ہم سب یہ تہیہ کر لیں کہ قانون اور قاعدے کے مطابق معاملات نمٹائیں گے تو رشوت اور سفارش کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اس کام میں اپنا حصہ ڈالے۔