ہر کسی سے بندہ توقع بھی نہیں کرتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ پھر بھی کسی سے توقع نہ رکھی جائے تو زیادہ اچھا ہوتا ہے۔اس کی وجہ ہے۔وہ یہ ہے کہ جب توقع اور امید ہو اور پرائی آس کے سہارے زندہ ہوں۔پھراس وقت بہت دکھ پہنچتا ہے کہ جس پر اعتبارہو وہی دھوکا دے جائے۔ یہ سب توقعات کی کارستانیاں ہیں۔نہ توقع ہوگی اور نہ کل کو گلہ ہوگا۔ مانا کہ توقع بھی تو ہر کسی سے نہیں کی جاتی۔اچھے کی امید اسی سے ہوتی ہے جس پر اعتبارہوتا ہے۔مگر اس کاکیاکریں کہ جس پر شدید اعتبار ہو وہی آنکھوں میں دھول جھونک کر چلتا بنے۔مگر انسان ہے نا یہ بھی کیا کہوں باز نہیں آتا ہے۔اسی سے دوبارہ دُکھ اٹھاتا ہے جہاں سے پہلے بھی اس کو صدمہ حاصل ہوا ہوتا ہے۔اصل میں انسان میل جول کی چیز ہے ایک دوجے سے ملنا ملانا رہتا ہے۔کوئی کب تک کسی سے نہیں ملے گا۔ رشتے تو چھوڑے نہیں جا سکتے۔ رشتہ تو کہتے ہی دھاگے کو ہیں۔مگر یہ وہ رشتے نہیں جو کچے دھاگوں سے بنے ہوتے ہیں۔ ایک گانے کے بول ہیں کہ ”پیار کے دھاگے توڑیں نہیں ٹوٹیں۔ جنموں کے بندھن چھوڑیں نہیں چھوٹیں“۔
رشتہ داریاں قدرت کے لگائے ہوئے وہ جوڑ وہ گانٹھیں ہیں جو بہت قوت لگا کر بھی نہیں توڑے نہیں جا سکتے۔سو جب ہماری کوشش ہمیں اچھی طرح معلوم ہے ناکام ہوگی تو اس طرح کی کوشش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیونکہ ”سب نہ ملنے تک کی باتیں تھیں جب آکر مل گئے۔سارے شکوے مل گئے سارا گلہ جاتارہا“۔ مگر اتنا تو بندہ کرہی سکتا ہے کہ کسی سے توقع نہ لگائے کیونکہ توقع نہ کریو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر دل کے ٹوٹنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ”دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے۔پچھتاؤ ہو سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے“۔شیشہ جوڑ دیا جائے لکیر تو رہ جاتی ہے۔ ہر چند ہم دنیا کی محفلوں میں ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں ہاتھ سے ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔ مگر”تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز۔دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا“۔ایک دوسرے سے گلے بھی ملتے ہیں مگر ”دلو ں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی۔ اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے“۔
تقریبات میں کس کے گلے ملنے کے باوجود دلو ں کی کدورتیں نہیں جاتیں۔ جب ملنا ملانا ہو تو الجھا ہی کیوں جائے۔ہندکو میں کہاوت ہے کہ بلی بھی دوسری بلی سے لڑے تو منہ پر پنجہ رکھ کر لڑتی ہے۔یعنی کہ کل جب دوبارہ اسی شخصیت سے ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ اس کے ساتھ کسی پھڈے میں پاؤں پھنسایا جائے۔ ”سب نہ ملنے تک کی باتیں تھیں جب آکر مل گئے۔سارے شکوے مٹ گئے سارا گلہ جاتا رہا“۔انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ اس میں انس ہوتا ہے وہ ملنا چاہتا ہے۔انسان تو بنیادی طور پر محبت کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے۔مگریہ ماحول ہے جس میں رہ کر وہ سخت دل ہو جاتا ہے اور دوسرے سے نفرت اور بیزاری کا ڈول ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔مگر اتنا تو کر سکتا ہے کہ کسی سے توقع نہ رکھے۔مگر توقع بھی تو مجبوری اور اعتبار دونوں میں رکھنا پڑتی ہے”جب توقع ہی اٹھ گئی غالب۔
کیاکسی کا گلہ کرے کوئی“۔ مگر گلہ بھی تو اپنوں سے ہوتا ہے کسی راہ چلتے سے کیا گلہ ہوگا۔ ”نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم۔ وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں“۔وہ کوئی ہو جو کہے کہ مجھے تو کسی سے نہ توقع نہ ہی گلہ ہے۔وہ درست نہیں کہتا ہوگا۔ کیونکہ دل میں کسی نہ کسی سے گلہ ضرور ہوتا ہے ہاں اگروہ گلہ وہ شکایت لبوں پرآکر کھیل نہ جائے۔ ”تیری بندہ پروری سے مرے دن گذر رہے ہیں۔نہ گلہ ہے دوستوں سے شکایتِ زمانہ“ مگر جو یہ کہتا ہے وہ اسی لئے کہتا کہ نا کہ اس کو دل ہی دل میں کسی سے گلہ تو ہوتا ہے۔”بس اس سبب سے کہ تجھ پر بہت بھروسہ تھا۔ گلے نہ ہوں بھی تو حیرانیاں تو ہوتی ہیں“۔
پھردل کے خوش رکھنے کو یہ خیال بہت اچھا ہے کہ کسی سے توقع نہ باندھی جائے ہر انسان کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے جو آڑے آتی ہے اور کسی کا ساتھ دینے میں موجودہ وقت میں قاصر ہوتا ہے۔ہر چند وہ اچھے دنوں میں کام بھی آ جاتا ہے”نہ جانے کون سی مجبوریوں کا قیدی ہو۔ وہ ساتھ چھوڑ گیا ہے تو بے وفا نہ کہو“۔”دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو۔کوئی تو ہو جومری حسرتوں کا ساتھی ہو“ ’مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید۔ دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں“۔مگر اتنا تو بندہ کر ہی سکتا ہے کہ کسی سے توقع نہ رکھے کیونکہ شیشہ ٹوٹے تو چھناکا ہوتا ہے مگر توقع پوری نہ ہونے پر دل اگر ٹوٹ جائے تو آواز نہیں ہوتی۔