سیلاب کے بعد صحت کے مسائل 

سیلاب کے بعد  ملک کے کئی حصوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ پر ہجوم امدادی کیمپوں میں رہنے والے بے گھر لوگوں کا علاج کرنے کے لئے ڈاکٹروں کے پاس ادویات  کی کمی کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ  سیلاب کے کھڑے پانی میں خطرناک جراثیم آسانی سے پھیل رہے ہیں۔  جبکہ ملک کے  دور افتادہ علاقوں میں ادویات اور صاف پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ زیادہ تر لوگ سیلاب متاثرین کے لیے بنائی گئی  پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں ایک طبی این جی او، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)  کے مطابق ملک کے کئی حصوں میں لوگ پینے اور دیگر ضروریات کے لیے سیلاب کا کھڑا ہوا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

زیادہ تر علاقوں میں مچھروں سے پھیلنے والے ڈینگی بخار کے کئی کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔  اور ایسیمیں مچھر دانیوں اور مچھر کے کاٹنے سے بچا ؤکے لئے استعمال ہونے والی ادویات کی اشد ضرورت ہے۔امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤکو روکنے کے لئے مزید ادویات کی فوری ضرورت ہے۔ فی الحال فارمیسیوں میں درد کش ادویات، اینٹی بائیوٹکس، جلدی امراض اور امراض نسواں کے مسائل، ذیابیطس اور آنکھوں کے انفیکشن سے نمٹنے کے لئے ادویات  کی کمی کا سامنا ہے۔ایک اور تنظیم کے مطابق انسولین اور دیگر ادویات حاصل کرنے کے لیے اکثر متاثرین ملک کے دیگر حصوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے پر مجبور ہیں۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہناہے کہ اگر طبی سامان جلد فراہم نہ کیا گیا تو سیلاب کے باعث جاری صحت کا بحران قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بھر پورتوجہ اور ٹیم ورک سے بہت سے مسائل تیزی سے حل ہورہے ہیں اور سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام بھی تیزی سے جاری ہے تاہم بدلتے موسم اور سیلاب کے کھڑے پانی کے باعث اگر طبی مسائل کاسامنا ہوتاہے تو اس کیلئے پہلے سے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ تاکہ مسئلے کو بحران بننے سے روکا جائے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس میں سب سے اہم کردار موسمیاتی تبدیلیوں کا ہے اور بد قسمتی تو یہ ہے کہ پاکستان کااس میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

 عالمی حدت میں اضافے کا باعث ترقی یافتہ ممالک ہیں جنہوں نے صنعتی ترقی کے لئے دنیا کے ماحول کو تباہی سے دوچار کیا ہے اوراب ان کے بوئے ہوئے کو پاکستان جیسے ممالک نے کاٹنا شروع کیا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ عالمی برداری اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکہ اور یورپی یونین قابل ذکرہے پاکستان جیسے ممالک کی مدد کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ ممالک کئی دہائیاں قبل اس مسئلے کی طرف توجہ دیتے اور اپنی صنعتی ترقی کیلئے دنیا کے ماحول کو تباہ کرنے کی حرکت نہ کرتے تو آج نہ صرف پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تباہی سے دوچار نہ ہوتے اور نہ ہی ان ترقی یافتہ ممالک کو اس وقت مالی مدد کے حوالے سے مہنگے ترین اقدامات کرنے کی ضرورت پڑتی۔

یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا ادراک اگر بروقت ہوتا تو دنیا کو ان گنت مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی اب یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماضی میں کئے گئے تمام ماحولیاتی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے اس حوالے سے وہ تمام اقداما ت اٹھائیں جن کا ان سے تقاضا کیاگیا ہے۔