معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحیم مروت کی تصنیف ”خوشحال خان خٹک: افغان قوم پرستی کا علمبردار“ ماضی کو حال سے جوڑنے کی کوشش اور موجودہ سماجی اور سیاسی مسائل کے تناظر میں عمدہ کوشش ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحیم مروت تین جولائی دوہزاربارہ میں قائم ہونیوالی ’باچا خان یونیورسٹی (چارسدہ)‘ کے سابق وائس چانسلر ہیں ’خان بابا‘ کے نام سے مشہور خوشحال خان خٹک شاعر‘ جنگجو اور خواتین کی تعلیم کے حامی تھے‘آپ بچوں کی نگہداشت‘ بشریات‘ نفسیات‘ مکالمے کی ثقافت‘ موسیقی‘ امن اور ترقی پسند خیالات و بصیرت رکھنے والے مفکر تھے‘ جن کی تحریروں کے اثرات آج بھی تاریخ پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ آپ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور (1613ء) میں خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے شہر ”اکوڑہ خٹک“ میں پیدا ہوئے‘ انہوں نے روایتی تعلیم غیر رسمی اساتذہ سے حاصل کی‘ جن میں کستیر گل‘مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی اور شاہ اویس صدیقی ملتانی شامل ہیں تاہم اپنے ماحول کی مروجہ روایات کے مطابق انہوں نے گھڑ سواری‘ تلوار بازی اور شکار جیسے فن بھی سیکھے‘خوشحال خان خٹک کی ذہانت‘ ادبی اور سماجی خدمات اور مغل سامراج کے خلاف اُن کے کردار (جدوجہد) کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تصنیف کردہ کتاب سے پختون نئی نسل کو اپنے آباء واجداد کے فلسفے اور تحریکوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ قبائلی سردار کے طور پر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اگرچہ خوشحال خان خٹک نے رسمی تعلیم مکمل طور پر حاصل نہیں کی لیکن اُنہوں نے مطالعے اور سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رکھا اور شاید ہی کوئی ایسا مضمون ہوگا جو اُن کے تنقیدی ذہن سے بچ سکا ہو یا جس پر اُن کی گرفت نہ رہی ہو۔ خوشحال خان بابا نے نوعمری ہی میں قبائلی لڑائیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بیس سال کی عمر میں شاعری لکھنا شروع کی۔ اُنہیں نہ صرف تلوار بازی اور قبائلی سردار کے طور پر بلکہ قابلیت کے مصنف کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے انہوں نے اپنی زندگی کے اوائل میں ہی سیاسی شہرت حاصل کی انکے پردادا ’ملک اکور خان‘ کو برصغیر میں مغل حکومت کے آغاز کے دوران منصبدار مقرر کیا گیا تھا منصبداروں کا انتخاب شہنشاہ نے کیا تھا اور اس عہدے میں سول اور فوجی دونوں ذمہ داریاں شامل تھیں بعد کے سالوں میں خٹک کے والد شہباز خان خٹک کو بھی ’منصبدار‘ مقرر کیا گیا شہباز خان کا انتقال اس وقت ہوا جب اس کے بیٹے کی عمر اٹھائیس سال تھی‘خوشحال خان خٹک کو اپنی بہادری‘ بصیرت‘ علمی صلاحیتوں اور منفرد ذہانت کی وجہ سے مغل دربار کی تعریف حاصل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اس نے پنجاب اور افغان ہائی لینڈز میں شہنشاہ مخالف جھڑپوں کیخلاف مزاحمت کرنے کیلئے مہمات کی قیادت کرکے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا اور کئی سال تک مغل بادشاہوں نے اس کی بہادری اور انتظامی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا‘ شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں‘ خوشحال خان خٹک کو بغاوت کے الزام میں پشاور میں دو ماہ کیلئے نظر بند رکھا گیا‘ تنازعہ یہ تھا کہ یوسفزئی قبیلہ‘ اُس وقت سلطنت کو ٹیکس ادا کرنے کیلئے تیار نہیں تھا اور اسے منصبدار کے عہدے سے ہٹانا چاہتا تھا‘ انہوں نے خٹک کو مغل دربار کیخلاف بغاوت کرنے پر رضامندکیا اور یوں وہ پشاور کے بعد میں راجستھان کے رنتھمبور قلعے میں بھی قید رہے ڈھائی سال بعد انہیں رہا کیا گیا اور عدم ثبوت کی بنا پر الزامات واپس لے لئے گئے تاہم اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھاخوشحال خان خٹک دربار کیساتھ گہرے وفادار رہے‘ یہاں تک کہ شہنشاہ کیلئے ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے اپنے پختون قبائل اور جاگیرداروں سے بھی لڑتے رہے لیکن الزامات اور قید نے انکی وفاداری کے احساس کو مجروح کیا اور اپنا مؤقف بدلتے ہوئے مغلوں کیخلاف اعلان جنگ کر دیا تاہم یہ واضح رہے کہ مغل حکومت کے بارے میں اُنکے خیالات کی تبدیلی ذاتی انتقام کی وجہ سے نہیں تھی قید کے دوران‘ خوشحال خان خٹک کو اپنے خیالات رقم کرنیکا نادر موقع ملا اور انہوں نے مشہور دستاویز دست نامہ ’پگڑی‘ لکھی‘ ریاست سازی‘ سیاست اور مثالی افغان قبائلی سردار کی قائدانہ خصوصیات کے بارے میں اس پشتو مقالے میں غیر ملکی حملہ آوروں اور غاصبوں کیخلاف بقا کی افغان جدوجہد کا تذکرہ ملتا ہے اور یہ تجویز کیا گیا کہ اپنے لوگوں اور سرزمین سے وفادار رہنما کس طرح اپنی کھوئی ہوئی شناخت (قومی کردار) کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے‘ خوشحال خان بابا امن پسند تھے اور اُنہوں نے دہشت گردی کی واضح الفاظ میں مذمت کی اُنیس سو ستائیس میں علامہ اقبالؒ نے ’خان بابا‘ کی زندگی پر ایک تحریر میں روشنی ڈالی جو ”حیدرآباد دکن“ کے ادبی جریدے ’اسلامک کلچر‘ میں شائع ہوئی اور اُس کا عنوان تھا ”خوشحال خان خٹک: دی افغان واریر شاعر“ خان بابا کو دوبارہ دریافت کرنے کا سہرا ایک پنجابی خاتون بیگم خدیجہ فیروزالدین کو جاتا ہے جنہوں نے اُنیس سو چالیس میں پنجاب یونیورسٹی میں اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بعنوان خوشحال خان خٹک جمع کرایا اِس سلسلے میں ایک کوشش خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے بھی کی جس کا پیغام یہ رہا کہ خان بابا کے جذبے کو زندہ کرنا‘ عدم تشدد اور بصیرت کی شمولیت کے ذریعے شاندار ماضی کو واپس لانا ممکن نہیں ہو سکتا۔ خوشحال خان خٹک کے حالات ِزندگی کو جامع انداز میں محفوظ کرتے ہوئے مصنف نے کتاب کے آخر میں اِس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب اور سرکاری تاریخ میں خوشحال خان خٹک (خان بابا) کی شخصیت کا صرف ایک ہی رخ دکھایا گیا ہے جبکہ اُنکے اوصاف زیادہ تھے اور وہ ایک ایسے مہذب و انسان دوست شخصیت تھے‘ جو خواندگی و ترقی پر یقین رکھتے تھے۔