ریلوے سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں 

تقسیم ہندکے بعد فرنگی ہمیں ورثے میں کئی اچھی چیزیں بھی سونپ کر گئے تھے ان میں ایک چیز ریلوے تھی ہماری غفلت کوتاہی نااہلیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک اچھے بھلے ریلوے کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے کے بجاے ہم نے اسے جڑ سے اکھاڑ دیا مقام افسوس ہے کہ اس ملک کے کسی بھی حکمران نے غریبوں کی اس سواری کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی کیونکہ وہ خود لمبی چوڑی گاڑیوں اور ہواہی جہازوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے کراچی کے اندر سرکلر ریلوے کا ایک اچھا خاصا سسٹم تھا اس طرح وہاں ٹرام بھی چلا کرتی تھی جس میں کم انکم والے ہزاروں لوگ سفر کیا کرتے تھے ھم نے اس سسٹم کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا اس ملک کا ایوان اقتدار میں ایک لمبے عرصے سے رود ٹرانسپورٹ کے کرتا دھرتاؤں کا راج تھا وہ بھلا کب چاہتے تھے کہ ریلوے کا نظام پھلے پھولے وہ تو بس روڈ ٹرانسپورٹ کے پھیلاؤ میں دلچسپی رکھتے تھے تاکہ ان کی تجوریوں بھرتی رہیں کسی حکومت نے اگر کبھی ریلوے کی نشاط ثانیہ کی کوشش کی بھی تو اسے ان لوگوں نے سیاسی پریشر سے ناکام بنا دیا ذرا سوچئے تو اگر کراچی یا کوئٹہ سے لے کر پشاور تک اشیاے خوردنی اور دیگر اشیا ٹرکوں کے بجاے مال گاڑیوں کے ذریعے ارسال کی جاتیں تو روڈ ٹرانسپورٹ کے مہنگے freight chargesکے بجاے مال گاڑیوں کے کم چار جز کی وجہ سے وہ عوام الناس کو کافی سستی پڑتیں اگر حکومت نے پہلے سے ہی موجود ریلوے ٹریک کو منزی سے بڑھا دیا ہوتا اور پیزو سے آگے ڈیرہ اسماعیل کو اس ٹریک سے منسلک کر دیا ہوتا کہ جو راولپنڈی سے ٹانک تک موجود تھا تو عام آدمی کو سفر کیلے بھی کتنی اچھی سواری میسر ھوتی پر عام آدمی کو کم خرچ سواری فراھم کرنے کا کسی حکمران نے سوچا ہی کب تھا اب سی پیک ہی ایک آسرا ہے اگر اس پروگرام کے تحت ملک کے اندر موجود ریلوے سٹرکچر کو جدید بنیادوں پر استوار کر دیا جاے تو اس ملک کے عام آدمی کو ملک کے اندر سفر کرنے کیلے نہ صرف ایک سستی سواری میسر آ جاے گی تجارتی حلقوں کو اشیا صرف ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچانے کیلئے مال گاڑیوں کی سہولت بھی فراہم ہو جائے گی ہمارے وزرا اور سرکاری ملازمین بھی اگر سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے واسطے ریلوے میں سفر کرنا شوروع کر دیں تو اس سے بھی ریلوے کی کار کردگی بہتر ہو جاے گی۔