پشاور کی میڈیسن ہول سیل مارکیٹ (نمک منڈی) میں ڈینگی بخار کی جانچ کرنے والی ایک پٹی (سٹریپ) جس کی پرانی قیمت 230 روپے تھی‘ نئی قیمت 300 روپے طلب کی جا رہی ہے اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ گنتی کے چند دکانداروں کے پاس مذکورہ پٹی دستیاب ہے۔ اِس سلسلے میں جب ایک دکاندار سے بات کی گئی تو انہوں نے قیمت میں اضافے کی چند رٹی رٹائی وجوہات تو گنوائیں لیکن مارکیٹ میں پائے جانیوالے ذخیرہ اندوزی کے رجحان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ”ادویات درآمد ہوتی ہیں‘ جن کی قیمتوں کا براہ راست تعلق روپے کی قدر سے ہوتا ہے۔ جیسے ہی ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے اس کے ساتھ ادویات کی قیمتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں اِس لئے اگر حکومت چاہتی ہے کہ ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول کرے تو اسے ادویات کی مقامی تیاری میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ پشاور کی ’مرکزی میڈیسن مارکیٹ‘ میں ادویات کی قیمتیں غیرمستحکم ہونے کا ایک تعلق بھارت سے غیرقانونی طور پر درآمد ہونے والی ادویات کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ بھی سامنے آیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں تیار اور فروخت ہونے والی ادویات کے مقابلے بھارتی ادویات کئی سو گنا کم قیمت اور معیار میں بہتر بتائی جاتی ہیں اور ایک ادویہ فروش نے تو یہ دعویٰ بھی کیا (جس کی باوجود کوشش بھی تصدیق و تردید نہیں ہو سکی) کہ ادویات فروش ادارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھارتی ادویات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں اور بھارتی ادویات کو پکڑوانے کے لئے انہوں نے خصوصی جاسوسی ٹیمیں تیار کر رکھی ہیں‘ جو مارکیٹ میں منڈلاتی رہتی ہیں اور جہاں کہیں بھارتی ادویات دستیاب ہوں‘ وہاں فوری طور پر متعلقہ حکومتی ادارے کے چاق و چوبند اہلکار کاروائی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اگر اِسی قسم کی مستعدی جعلی ادویات کے خلاف بھی دکھائی جائے تو اِس سے عام آدمی کی بھلائی زیادہ ہوگی لیکن افسوس کہ وہ ادویات جو ایک عام آدمی کو کم داموں مل سکتی ہے لیکن اسے خلاف قانون قرار دیدیا جاتا ہے۔اہم بات یہ بھی ہے کہ نمک منڈی کے میڈیسن ڈیلرز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاروائیوں سے اِس قدر خوفزدہ دکھائی دیئے کہ وہ ’آن دی ریکارڈ‘ تاثرات تک نہیں دیتے اور مصروفیت (کام کاج) کا بہانہ کرتے ہیں یا پھر کہتے ہیں مالک خود دکان پر نہیں ہے! سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال جس میں تمام تر انگلیاں ’میڈیسن ڈیلرز‘ کی جانب اٹھ رہی ہیں اور انہیں ذخیرہ اندوز‘ منافع خور‘ سٹہ باز اور غیرقانونی ادویات رکھنے والوں جیسے القابات سے پکارا جاتا ہے لیکن ادویات کی کمی اور قیمتوں میں اضافے کے ان محرکات کو عوام کے سامنے نہیں رکھا جاتا جن کی وجہ سے اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ اور غیرمتاثرہ علاقوں میں ’ڈینگی بخار‘ پھیلا ہوا ہے اور یہ صورتحال اِس لحاظ سے زیادہ تشویشناک رُخ اختیار کر گئی ہے کہ ڈینگی معلوم کرنے کی پٹی (سٹریپ) بمشکل اور اضافی قیمت کے عوض دستیاب ہے! یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران صرف بخار کم کرنے والی ادویات ہی نہیں مرگی‘ بلڈ پریشر‘ شوگر اور دل و گردوں کے امراض میں استعمال ہونے والی بعض ادویات بھی ’اصل قیمت‘ سے زائد میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ایسا آنکھوں دیکھا واقعہ یہ رہا کہ ایک گاہگ نے جب دکاندار سے دوا پر درج ’کم قیمت‘ کا ذکر کیا تو اس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر‘ دوا کو جھپٹ کر اس کے سامنے سے اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے منہ پھیر لیا کہ ”جہاں سے یہ دوا سستی مل رہی ہے‘ وہاں سے جا کر لے لو۔“ ظاہر ہے کہ اِس کے بعد دوا کے خریدار کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں اور اس کی بے بسی عیاں تھی‘ جس نے معذرت چاہتے ہوئے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہزار روپے کا نوٹ دکاندار کی طرف بڑھایا۔پشاوری قہوے کی پیالی بڑھاتے ہوئے ایک بظاہر جوانسال و تندرست لیکن سفید ریش دکاندار‘ جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ”مہنگائی کا اثر ضرورت کی ہر شے پر مرتب ہو رہا ہے۔ اگر قومی و صوبائی فیصلہ ساز اِس بات پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ آخر ایسی کونسی چیز ہے جس کی قیمتوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران 100 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوا؟ کیا بجلی کے بل زیادہ نہیں ہوئے؟ ہر دکاندار جو کہ بجلی کا کاروباری صارف ہوتا ہے‘ چند ماہ کے دوران بجلی کی دوگنی سے بھی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ دکان کے جملہ اخراجات بڑھ گئے ہیں اور ادویات کی نقل و حمل پر اٹھنے والے اخراجات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں تو دکانداروں سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مہنگے داموں ادویات خرید کر انہیں سستے داموں فروخت کریں!؟“