ایس سی او کا22واں سربراہ اجلاس 

 وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ثمرقند ازبکستان میں منعقدہ 22ویں سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ عالمی حدت کے پاکستان پر تباہ کن اثرات کے پیش نظر ایس سی او کے رکن مما لک کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان سے متعلق خصوصی پروگرام وضع کرناچاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن خطے میں امن کی ضمانت ہے، افغانستان کونظرانداز کرنا بڑی غلطی ہوگی، وزیر اعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم اور بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی مدد اور ملک میں معاشی و سیاسی استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کریں‘ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ کی بھاری قیمت اداکی ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہمیں ملکر دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنا ہو گا۔ ایس سی او کا حالیہ سربراہ اجلاس جو اس تنظیم کے 2001ء میں قیام سے رکن ممالک کے ہاں ہر سال باقاعدگی سے منعقدہوتا آیاہے گزشتہ دوبرسوں کے دوران کورونا وباء کی وجہ سے جسمانی طور پرتو منعقدنہیں ہوسکا تھا البتہ اس وباء کے دوران بھی اس کے اجلا س ملتوی کرنے کی بجائے آن لائن منعقدکئے گئے جس سے جہاں  تنظیم کی فعالیت کااندازہ ہوتا ہے وہاں اس میں رکن ممالک کی دلچسپی کا عنصر بھی نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔کرہ ارض پر سرگرم عمل کئی علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں میں سب سے کم عمر تنظیم ہونے کے باوجود ایس سی او نے پچھلے بیس سال کے دوران اس خطے کے ممالک کی قربت اور ان ممالک کو درپیش دہشتگردی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں جوجاندار کردارادا کیا ہے اس سے اس تنظیم کی نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی اہمیت میں بھی دن بدن اضافہ ہورہاہے۔واضح رہے کہ ایس سی اوجغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو یوریشیا کے تقریباً 60 فیصد رقبے، دنیا کی 40 فیصد آبادی اور عالمی GDP کے 30 فیصد سے زیادہ حصے پر محیط ہے۔چین اور روس کے علاوہ ازبکستان،قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، پاکستان اور بھارت کے آٹھ رکنی ممبر زپر مشتمل اس تنظیم کی وسعت میں وقت کیساتھ ساتھ مزید اضافہ ہورہا ہے جس کی تازہ مثال حالیہ اجلاس میں ایران کومبصر کے درجے سے ترقی دیتے ہوئے اسے تنظیم کا مستقل رکن بنانا ہے‘ ایس سی او کے دیگر مبصرین میں بیلا روس اورمنگولیاشامل ہیں جب کہ نئے سٹریٹجک پارٹنرز بشمول سعودی عرب،  اورکئی دیگر تنظیموں اور اداروں کو بھی ایس سی اومیں خوش آمدید کہا گیاہے‘اس حالیہ اجلاس کی ایک اور خاص بات اس میں ترکیہ، آزربائیجان،بیلا روس، ترکمانستان اور منگولیا کے صدور کی خصوصی دعوت پر شرکت تھی۔ایس سی او رقبے، جغرافئے، آبادی، معیشت اورقدرتی وسائل کے لحاظ سے ایک مثالی تنظیم ہونے کے باوجود اس خطے بالخصوص ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان موجود تناؤ حتیٰ کہ جنگ کی کیفیت کے تناظرمیں ایک بڑے چیلنج سے دوچار ہے جس پر اب تک نہ تو کسی رکن ملک اور نہ ہی اس تنظیم کے بانی اور روح رواں چین کی جانب سے کوئی خاطر خو اہ توجہ دی گئی ہے حالانکہ ایس سی او تنظیم اقتصادی اور سکیورٹی تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی تنظیم بھی ہے روسی صدر ولادی میر پیوٹن تو اسے ایک امریکہ اور نیٹو مخالف اتحاد میں بدلنے کے بھی متمنی اور خواہشمند ہیں۔ایس سی او کی اپنی صفوں میں پائی جانے والی بداعتمادی کے ضمن میں سب سے بڑی مثال تو روس یوکرائن جنگ ہے۔اسی طرح اس تنظیم کے دو ڈائیلاگ پارٹنرز ممالک آرمینیااور آزربائیجان کے علاوہ دودیگر پڑوسی ممالک تاجکستان اور کرغزستان کے درمیان حالیہ سربراہ اجلاس کے دوران ہی سرحدی جھڑپیں ہوچکی ہیں ایس سی او کوپاکستان اور بھارت کے درمیان موجو دشدید کشیدگی اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے بھی صرف نظر نہیں کرناچاہیے اسی طرح ایس سی او کے بانی چین اور دوسرے بڑے رکن بھارت کے درمیان سرحدی کشید گی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ایس سی او کے حالیہ سربراہ اجلاس کی ایک اور اہم بات پاکستان کی جانب سے افغانستان کی صورتحال کی جانب رکن ممالک کی توجہ دلانا تھا۔