یہ خبر پوری دنیا میں دلچسپی کے ساتھ سنی اور دیکھی گئی کہ آنجہا نی ملکہ الزبتھ دوم کے بعد ان کے ولی عہد پرنس آف ویلز پرنس چارلس کو کنگ چار لس سوم کے نا م سے بر طانیہ کا باد شا ہ بنا یا گیا اور ان کے بیٹے ولیم کو ولی عہد کی حیثیت سے پرنس آف ویلز کا خطاب دیا گیا یہ بات پا کستان میں اکثر لوگوں کو عجیب لگتی ہے کہ دنیا کے اکثر مما لک میں انگریزی زبان کا را ج ہے لیکن ویلز میں انگریزی کی جگہ مقا می زبان ویلش رائج ہے جس نے انگریزی کی جگہ لی ہے بر طا نیہ کا ولی عہد ہو یا بادشاہ کوئی بھی ویلش کی جگہ انگریزی رائج نہیں کر سکتا، ویلش Welshکو یہ در جہ 1707 کے معا ہدہ الحاق کی وجہ سے ملا ہے اس معا ہدے کی رو سے ویلز، سکا ٹ لینڈ اور شما لی آئیر لینڈ نے انگلینڈ کے ساتھ مل کر یونا ئٹیڈ کنگڈم (یو کے) بنا نے کا اعلا ن کیا اوراپنے لئے اندرونی خود مختاری کی سند حا صل کی اس سند کی رو سے پرنس آف ویلز کو یہ حق نہیں کہ وہ شا ہی حکم کے ذریعے وہاں ویلش کی جگہ انگریزی رائج کر سکے اقوام و قبا ئل کی زند گی میں ایسے موڑ اور ایسے مقا مات آتے ہیں.
جب ان کو حا لات کے مطا بق سمجھو تہ کرنا پڑ تا ہے کسی دوسری قوم کے ساتھ اتحاد کی ضرورت پیش آتی ہے یا کسی بڑے مقصد کو حا صل کرنے کے لئے وقتی طورپر جھکنا پڑتا ہے لیکن غیور اور خود دار قوم یا قبیلہ ایسے موڑ پر اپنی شنا خت، اپنی پہچان اور اپنے نا م یا ننگ و نا مو س کو بر قرار رکھتا ہے، اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے رسم و رواج کو سینے سے لگا کر رکھتا ہے ویلز کے دار الحکومت کا رڈیف میں کر کٹ میچوں کی بڑی شہرت ہے کا رڈیف کے اندر گھومنے پھر نے والے سیا ح جا نتے ہیں کہ پورے شہر میں سائن بورڈ ویلش زبان میں لکھے ہو تے ہیں، سکولوں میں ویلش پڑ ھا ئی جا تی ہے، دفتری زبان بھی ویلش ہے ویلز کے لو گوں کو انگریزی سے کدورت نہیں، انگریزی بھی انگلینڈ والوں کی طرح بولتے ہیں اور لکھتے ہیں مگر انہوں نے انگریزی کو مقا می زبان پر فو قیت اور تر جیح نہیں دی.
انگلینڈ کے ساتھ اتحا د اور الحا ق کر لیا لیکن اپنی شناخت، اپنی زبان اور اپنی ثقا فت کا سودا نہیں کیا یہ اُس وقت کی بات ہے جب اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیم کا وجود نہیں تھا، عالمی قوانین اور کنو نشن نہیں تھے، مقا می لو گوں کو ایبو ری جینز (Aborigins)یا انڈی جے نس (Indigenous) کا در جہ نہیں دیا گیا تھا، اس کے باو جود یہ لو گ جا نتے تھے کہ اپنی زبان اور ثقافت کا تحفظ ہمارا پیدائشی حق ہے، انگلینڈ کی محبت میں ہم اپنے حق سے دست بردار نہیں ہو سکتے اور دنیا کی کوئی قوم ہمیں اپنی شنا خت سے دست بردار نہیں کر سکتی، امریکہ کے ایمش اور کینڈا کے مینو نائٹ بھی ایسے لو گ ہیں جو سمندر میں رہتے ہوئے قطرے کی انفرا دیت کو سینے سے لگا ئے بیٹھے ہیں ان کے مقا بلے میں دولت مشترکہ یا کامن ویلتھ میں شا مل مما لک کا حال بہت پتلا ہے ان مما لک کو یہ پٹی پڑ ھا ئی گئی ہے کہ تم سو سال تک بر طا نیہ کے غلا م تھے.
غلا می کے دور میں ہم نے تم کو اپنا لبا س دیا، اپنی زبان دی، اپنا کلچر دیا اب تم غلام نہیں رہے مگر زبان اور ثقا فت میں رہن سہن میں ہماری پیروی کرو ہم نے دولت مشترکہ کا پلیٹ فارم اس لئے بنا یا ہے کہ تمہیں تمہا ری غلا می کا زما نہ یا د دلا تے رہیں پس تم انگریز ی پڑھو، انگریزی بولو، ہمارا لباس پہنو، ہمارا کلچر اپناؤ تا کہ غلا می کا وہ زما نہ تمہیں یا د رہے اور تمہاری نسلوں کو بھی یا د رہے بر طا نیہ کے ولی عہد شہزادے کو پرنس آف ویلز کہا جا تا ہے مگر ویلز میں ان کی زبان نہیں، ان کا لباس نہیں چلتا، ویلز کے لوگوں نے اپنی زبان کو اپنی آزادی اور خود مختاری کا وسیلہ، ذریعہ اور واضح نشا ن بنا یا ہوا ہے۔