غذائی بحران کا خدشہ

دنیا کے کئی ممالک مستقبل قریب میں خوراک کی کمی کے بحران کا شکار ہو سکتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کم از کم اس ضمن میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے‘ پہلے کورونا کی شکل میں امتحان آیا‘ بعد میں کلائمٹ چینج‘ بارشوں اور سیلابوں نے قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے‘اس کے ساتھ ساتھ اب کئی دیگر بیماریوں نے بھی سر اٹھا لیا ہے اور اب ممکنہ غذائی بحران کی بات بھی کی جا رہی ہے‘ اس جملہ معترضہ کے بعد چند دیگر اہم امور کا بھی ہلکا سا ذکر کر لیتے ہیں۔17برس کے وقفے کے بعد انگلستان کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے‘ لگ رہا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں جو یہ خوف پیدا کیا تھا کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے وہ اب زائل ہوتا نظر آ رہا ہے‘گو کہ اس وقت پورا ملک سیلابوں کی تباہ کاریوں کے ہاتھوں ڈسٹرب ہے پر اس کے باوجود عوام نے انگلستان کی کرکٹ ٹیم کی پاکستان میں آمد پر جس گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اس سے ان کی کرکٹ کے کھیل سے دلی وابستگی کا پتہ چلتا ہے.

شاہین آفریدی کی ٹانگ میں چوٹ کا انگلستان میں خاطر خواہ علاج کیا جا رہا ہے اور پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ ان کے علاج میں کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ نہ جانے بعض لوگ کیوں ان کے علاج پر الٹے سیدھے بیان دے کر اسے متنازعہ بنا رہے ہیں‘ امید ہے انگلستان کی کرکٹ ٹیم کے اس دورہ کی دیکھا دیکھی اب کئی دیگر ممالک بھی پاکستان کے دورے پر اپنی ٹیمیں بھجوانا شروع کریں گے اور وطن عزیز کے کرکٹ گرانڈ ایک مرتبہ پھر آباد ہونے لگیں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیراعظم نے اپنی شرکت کے ساتھ وہاں پر موجود دینا کے تمام رہنماوں کی توجہ وطن عزیز میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف مبذول کرائی ہے‘ ابھی چند روز پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورے کے دوران سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جا چکے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ معاملہ سانجھا ہے.

آج اگر پاکستان تباہ حال ہے تو کل کلاں اس قسم کی تباہی کا کوئی اور ملک بھی شکار ہو سکتا ہے اس لئے اقوام عالم کو دل کھول کر مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی مدد کرنا ہو گی۔ اب ذرا ذکر ہو جائے انگلستان کی پارلیمنٹ کا انگلستان کے پارلیمان کے دو حصے ہیں ایک کو ہاؤس آف کامنز یا دارالعوام کہا جاتا ہے اور دوسرے کوہاؤس آف لارڈز یا دارالا امراء‘ ان میں ان کے اراکین جو تقاریر کرتے ہیں ان کو باقاعدہ ایک کتابی شکل میں ہر ماہ چھاپا جاتا ہے جس سے اندازہوتا ہے کہ انگلستان کے عوام اپنے پارلیمان میں جو افراد الیکشن کے ذریعے چن کر بھجواتے ہیں وہ نہ صرف غیر معمولی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں بلکہ نہایت تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں۔نہ جانے ہمارے ارباب بست و کشاد کو ابھی تک یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ہمارے اراکین اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کی تقاریر کو بھی کتابی شکل دینی ضروری ہے۔