کسی بھی قسم کی قدرتی یا غیر قدرتی آفت ہو اِس سے ہمیشہ زیادہ بڑی تعداد میں بچے اور خواتین متاثر ہوتی ہیں اور حالیہ سیلاب میں بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہیں اور یہ متاثرین اپنی تعلیم و صحت کی دیکھ بھال یا سہولیات کے حوالے سے پریشان ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ویکسینیشن مہم نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ بہت سے علاقے ناقابل رسائی ہیں اور یہ ’ناگفتہ بہ صورت حال‘ فوری منصوبہ بندی کی متقاضی ہے جس کا بنیادی محور و مرکز عمومی امدادی و بحالی کے منصوبوں کی بجائے بچوں کے لئے مخصوص امدادی کاروائیاں ہونی چاہیئں۔ یہ صورتحال اِس لئے پریشان کن ہے کیونکہ آنے والے مہینوں میں سردی کی شدت اور سردی کے ساتھ موسمی بیماریوں کی شدت زیادہ ہو جائے گی جیسا کہ اِس طرح کے سیلابوں کے نتیجہ میں دیکھنے میں آتا ہے اور اِس پوری آفت کی بھاری قیمت (سنگین نقصان) بچوں کو ادا کرنا پڑتا ہے‘ جو اس سانحہ سے قبل پہلے ہی ”غذائی قلت“ کا شکار تھے اور آنے والے مہینوں اور سالوں میں بھی یہی طبقہ سب سے زیادہ خطرے میں ہے اور اس وقت تک رہیں گے جب تک سیلاب متاثرین بچوں کے بارے میں کوئی قومی حکمت عملی نہیں بنا لی جاتی۔ سیلاب سے ہونے والی اموات میں سے ایک تہائی سے زیادہ بچے ہیں اور جیسا کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے اندازہ لگایا ہے کہ حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کم سے کم …… 1 کروڑ 60 لاکھ (16ملین) …… سے زیادہ ایسے بچے ہیں جنہیں امداد کی ضرورت ہے‘ ان میں شامل چونتیس لاکھ بچوں کو زندگی بچانے والی خوراک و ادویات کی فوری ضرورت ہے.
اگرچہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی قلت ہے اور وہاں زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی بھی ممکن نہیں۔ ایسی ادویات جو پانی کی تطہیر اور پینے کے پانی سے پھیلنے والی متعدی بیماریوں کو روکتی ہیں انتہائی ضروری ہیں اور انہیں کسی بھی طریقے سے سیلاب متاثرین تک پہنچانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ صرف سیلاب ہی نہیں بلکہ سیلابی علاقوں سے متصل اضلاع جیسا کہ پشاور میں بھی ڈینگی بخار ماضی کی نسبت اِس سال زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے اور اسہال و غذائی قلت کے شکار بچوں کی صورتحال تو بیان کرنے کیلئے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ کم سے کم بھی اگر کچھ کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فوری علاج معالجہ فراہم نہ کیا گیا اور بچوں کو نظرانداز کرنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کو جو کچھ کھانے پینے کیلئے مل رہا ہے اور جو بودوباش میسر ہے وہ ان کے ذہنی آرام (آسودگی) اور جسمانی ضروریات کے لئے ناکافی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ بچے ”غذائیت کی کمی“ کا شکار ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ سیلاب سے متاثرہ ہوں یا نہ ہوں لیکن غربت زدہ دیہی علاقوں کی خواتین کی اکثریت اور بچے اِس قدر صحت مند نہیں ہوتے کہ وہ کسی بھی معمولی بیماری کے حملے کو برداشت کر سکے۔
اِن کی جسمانی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اِس صورتحال میں علاج گاہیں اور تعلیمی ادارے تباہ ہیں۔ صحت کے بنیادی مراکز غیر فعال ہونے کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ بچوں کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ درحقیقت سیلاب جیسے صدمے سے زیادہ‘ بعد از سیلاب صدمے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے نشیبی علاقوں کو گھیرا رکھا ہے اور جہاں اِس طرح کی مایوسی پائی جائے تو اس کے زیادہ بڑے پیمانے پر نقصانات سامنے آتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں غربت اور مہنگائی عروج پر ہے اور جہاں خوراک اور پانی کی شکل میں عارضی طور پر امداد تقسیم کرنے والوں کی تعداد بھی ہر دن کم ہو رہی ہے تو ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سیلاب کا پانی اترنے والے علاقوں کے بارے میں الگ سے حکمت عملی وضع کی جائے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے وہ بچے جن کی رہائش گاہیں اب نہیں رہیں اور جن کے والدین سیلاب سے پہلے کی حالت سے بہت بدتر غربت کا شکار ہو چکے ہیں.
وہ خود کو انتہائی بے بس و لاچار محسوس کر رہے ہیں اور اِس مایوسی و ذہنی تناؤ کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات میں کئی گنا اضافے کا امکان ہے۔ پاکستان کے بارے میں ’یونیسیف‘ کا کہنا ہے کہ قریب چالیس فیصد بچوں کی جسمانی نشوونما متاثر ہوئی ہے اور کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بچوں کی جسمانی بالکل رک چکی ہے۔ اِس نتیجہئ خیال اور حقیقت حال کا نچوڑ یہ ہے کہ سیلاب متاثرین بچوں کی نشوونما کو اولین ترجیح ملنی چاہئے۔ توجہ طلب ہے کہ جہاں سیلاب ہوتا ہے وہاں ذہنی تناؤ کی وجہ سے خاندانی جھگڑے ہوتے ہیں اور اِس صورتحال سے بھی لاکھوں بچے متاثر ہیں جو بھوک کے علاؤہ بدسلوکی اور صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ سیلاب سے زیادہ بڑا المیہ ہوگا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے بچوں اور بالخصوص لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں‘ اِس سلسلے میں بھی قومی سطح پر حکمت ِعملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ بچے بچیوں کو بھیکاری‘ مزدوری اور جسم فروشی کے لئے استعمال کرنے والے جرائم پیشہ عناصر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سرگرم ہونے کی اطلاعات تشویشناک ہیں اور اِن کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔