اک راستہ ہے زندگی

بات یہ ہے کہ شہر میں ہر جانب رش ہے اور بے تحاشا بھیڑ ہے۔یہ ٹریفک کے رش کی بات نہیں۔ انسانوں کا ایک ہجوم ہے جو قابو سے باہر ہے یہ ہمارے ہی شہر کا المیہ نہیں ہر شہر میں جس طرف نگاہ کیجئے یہی عالم ہے۔ایسے میں کہ انسانوں کا رش ہو آبادی توقع سے زیادہ ہو تو بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر اتنی مخلوق کہاں سے چلی آئی ہے۔پھر جب یہی لوگ گاڑیوں اور بسوں اور رکشوں موٹر سائیکلوں میں ہوں تو لازمی ہے کہ یہی بھیڑ بھاڑ ٹریفک کے سیلاب میں بدل جاتی ہے۔کوئی انتظام نہیں ہے۔اہتمام نہیں ہے۔خاص نہیں او رعام نہیں ہے۔ ایک اودھم مچا ہوا ہے۔جب آبادی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی اور سب لوگ ایک ہی چھوٹے سے شہر میں رہنے کو ترجیح دیں گے تو پھر ایسا تو ہوگا۔ جس بازار میں سے ہو کر گذرو تو پشیمانی کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ کیوں آئے یہاں اب پھنس گئے تو جائیں کہاں۔آگے ہوں تو رش ہے اور پیچھے واپس مڑ جائیں تو تب بھی اس ہجومِ بے کراں سے نکل نہیں سکتے۔سو اب آ گئے ہو تو چلو رسمِ زمانہ ہی سہی جو پھنس گئے تو کچھ نہیں۔اک راستہ ہے زندگی۔نکل ہی چلیں گے پہنچ ہی جائیں گے۔

گھر تک اگر اب نہیں تو شام کو تو پہنچ جائیں گے۔ باہر ملکو ں میں جو سرکاری انتظامات ہوتے ہیں وہ اس ملک اور اس شہر کی آبادی کو سامنے رکھ کر کئے جاتے ہیں۔اب وہ لوگ جو بھیڑ بھاڑ سے دور بھاگتے ہیں بھاگ کر کہاں جائیں۔ شہر کے ہر گوشہ اور ہر کونے کھدرے میں دفاتر اور ادارے بینک واقع ہیں۔عزیزوں رشتہ داروں کے محلے اور ان کے علاقوں میں خوشی کے موقع پرجانا تو پڑتا ہے۔سو کتنا کترائیں گے آخر تو جائیں گے۔جانا تو پ ڑتا ہے پھر اسی رش میں سے ہوکر آنا تو پڑتا ہے۔جن لوگوں کا بھیڑ بھاڑ کے عالم سے دل گھبراتا ہے ان کا تو دل اور گھبرائے گا۔ کیونکہ شہر کی آبادی تو روز بروز بڑھ رہی ہے۔کسی کو شہر سے نکال نہیں سکتے اور کسی کو زبردستی شہر میں لا کر آباد نہیں کر سکتے۔ سہولیات کی وجہ سے ہمارے شہر میں آبادی کا زیادہ ہوجانا عام سی بات ہے۔

اچھے ہسپتال یہاں ہیں اچھے تعلیمی ادارے اسی نگر میں آباد ہیں سرکاری دفاتر ہیں اور پھر یہی شہر صوبے کا مرکز ہے جس کو صوبائی دارالحکومت کا درجہ ملاہوا ہے۔اس لئے جوں صبح کاسورج طلوع ہوتا ہے تو سحر خیر لوگ کام دھندوں والے اس شہر کی جانب مارچ شروع کردیتے ہیں۔ پھر اگر کوئی جلسہ ہو تو رہی سہی کسر پوری ہو جاتی ہے۔راستے بند ہو جاتے ہیں اور بندوں کا وہاں سے گذرنا محال ہو جاتا ہے۔اسی رش کے کارن اس بھیڑ میں جو لا متناعی ہے بیچاری ایمبولینس کسی جاں بلب مریض کو لے کر ہنگامی طور پردوڑبھاگ میں مصروف ہوتی ہے کہ اس کو ایمرجنسی وارڈ میں پہنچایا جائے۔ مگر اس کے ہارن چیختے چلاتے رہتے ہیں اور رش میں ہر کوئی جو آگے نکلنا چاہتا ہے اس کے دل میں اس گاڑی کی فریاد کا کوئی اثر ہی نہیں ہوپاتا۔بھلے مریض راستے میں زندگی کی راہ سے ایمبولینس کے اندر ہی واپس مڑ جائے مگر ان بعض پتھر دل والوں پر ایمبولینس کے ہارن کوئی اچھا اثر نہیں ڈالتے۔اس کی طرف غور کرنا ہوگا۔

اگلے پانچ سالوں میں آبادی کا گراف جانے کہا ں تک پہنچ جائے۔ آبادی کے زیادہ ہوجانے سے مسائل بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ بندہ اگر ایک گھرمیں ہو تو وہاں پندرہ لوگ رہتے ہوں۔ پھروہاں گھر کا سربراہ کس کس فر د کی طرف توجہ دے پائے گا۔ جو ساری آمدن ہے وہ ماہانہ ہے یا روز کا روزگار ہے اس کو زیادہ بندوں پر تقسیم کر کے خرچ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ہمارے ہاں وسائل روز بروز بڑھ تو نہیں رہے آمدن کم ہو رہی ہے۔ایسے میں اتنی آبادی کو یہ چھوٹا سا شہر اپنی سہولتوں کے ہوتے سوتے کیسے سنبھال پائے گا۔ کیونکہ ہسپتالوں میں جاؤتو وہاں رش ہے اور تعلیمی اداروں میں جاؤ تو وہا ں بھیڑ ہے اب اگر ہسپتال میں پھنس گئے تو وہاں کھڑے ہوکر سب کام انجام دینا ہونگے بعض ہسپتالوں میں پرچی کے پیسے زیادہ ہیں بعض میں کم ہیں چلو یہ تو اچھی بات ہے کہ کہیں کم کہیں زیادہ۔مگر اس کا کیاعلاج کریں کہ بیماریوں کی دوائیں جو ہسپتال سے باہر بازار میں میڈیسن سٹور پر فروخت ہوتی ہیں وہ جو مہنگی ہیں۔ان دواؤں کی خریداری میں تو سرکار نے کوئی سبسڈی نہیں دے رکھی۔تو بتلاؤ کہ عام آدمی کہاں جائے۔