پبلک اکاونٹس کمیٹی نے حال ہی میں پاکستان کے اندر غیر قانونی طور ہر افغانیوں کی رہائش کا جو ذکر کیا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ایک دنیا جانتی کہ ہمارے محکموں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ان لوگوں نے پاکستانی شناختی کارڈ بنا رکھے ہیں اور ان کی بنیاد پر وطن عزیز میں اراضیات اور پراپرٹی بھی خرید رکھی ہے اور تو اور پاکستانی پاسپورٹوں پر یہ لوگ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک تک جا پہنچے ہیں وہاں پر جرم یہ کرتے ہیں اور نام پاکستان کا بدنام ہو رہا ہے کیونکہ ان کی جیب میں پاکستان کا گرین پاسپورٹ ہوتا ہے حال ہی میں عرب امارات میں کرکٹ گراؤنڈ پر اودھم انہوں نے مچایا اور نام ہمارا بدنام ہوا‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کے ارباب اقتدار کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ تحقیقات کر کے پاکستان میں نادرا اور پاسپورٹ کے دفاتر میں بیھٹے ان اہلکاروں کو پکڑ کر ان پر متعلقہ تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمے چلا کر ان کو سخت سزا دلاتے اور نشان عبرت بناتے کہ جنہوں نے افغانیوں کو پاکستانی شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں کا اجرا کیا تا کہ آئندہ کیلئے اس قسم کی کوئی جرات نہ کرتا چونکہ اس ملک حقیقی معنوں میں سزا اور جزاء کا کلچر اپنایا ہی نہیں گیا اور اکثر مجرموں کو سیاسی مداخلت سے بچا لیا جاتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقیات کے فقدان کا مسلسل شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم پہلے بھی کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں اور آج پھر اپنی اس تجویز کا اعادہ کرتے ہیں کہ جب تک ہم افغانیوں کے لئے پاکستان آنے کے لئے اس قسم کا طریقہ کار نہیں اپنائیں گے کہ جو انگلستان والوں نے غیر ملکیوں کے واسطے انگلستان میں داخل ہونے کے لئے اپنا رکھا ہے پاکستان میں افغانیوں کا غیر قانونی طور پر داخلہ بند نہیں ہو سکے گا‘اسی طرح پاک افغان بارڈر پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہو گی اور ان عناصر سے سختی سے نبٹنا ضروری ہو گا کہ جو بغیر ویزا کے پاکستان میں گھسنے کی کوشش کریں‘ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہمیں جب بھی افغانستان کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قسم کی امیگریشن پالیسی بنانے کی طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی اس معاملے کو توکل پر جیسے چھوڑ دیا گیا ہے آج بھی افغانی بغیر کسی روک ٹوک کے اس ملک میں داخل ہو رہے ہیں اور ماضی کی طرح پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی حاصل کر رہے ہیں۔
ہم نے تو آج تک ان کے منہ سے پاکستان کے بارے میں کوئی اچھا جملہ نہیں سنا‘کیا افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک نہ تھا کہ جس نے قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ روس اور یوکرائن کے درمیان لگتا ہے تنازعہ ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہا ہے امریکہ یوکرائن کی ہلہ شیری کرنے سے باز نہیں آ رہا امریکی صدر بائیڈن کے تیور اچھے دکھائی نہیں دے رہے ادھر روسی صدر پیوٹن بھی غصے کے عالم میں نظر آ رہے ہیں چین کوشش تو بہت کر رہا ہے کہ امریکہ اور روس اس معاملے میں میانہ روی اختیار کریں پر تا دم تحریر واشنگٹن اور ماسکو میں تنا ؤاور کھچاؤ بڑھ رہا ہے اور خدانخواستہ اگر ان دو سپر پاورز کے درمیان جھڑپ ہوتی ہے تو وہ تیسری عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔