طرز حکمرانی

سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوب جانے کے بعدیہ جاننا مشکل ہے کہ کس قسم کی ”طرز حکمرانی“ اس تباہی کو روک سکتی تھی جو لوگ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک میں غیر معمولی (زیادہ مقدار اور دورانیے کی) بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کا مسئلہ بنیادی طور پر ”طرز ِحکمرانی“ کا مسئلہ ہے‘ درحقیقت وہ اس دلیل کے ساتھ بہت سے پہلوؤں کا جائزہ لینے کی طرف متوجہ کر رہے ہوتے ہیں اور بلاشک و شبہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے دیگر اداروں اور شعبوں کی طرح پاکستان میں طرزحکمرانی کی بھی اصلاح ہونی چاہئے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کی ایک صورت موسمیاتی پیشنگوئی کا جدید نظام ہے۔ دوسری ضرورت کسی بھی ہنگامی صورتحال میں قومی اداروں کی جانب سے امدادی کاروائیاں شروع کرنے میں ”تیز تر“ رسپانس ٹائم ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے اداروں کی صلاحیت اور وسائل میں اضافہ کرنا پڑے گا۔

 علاوہ ازیں سیلاب کے پانی کے اخراج کے راستوں کے ساتھ زوننگ جیسی پابندیاں عائد کر کے متاثرین کی تعداد کم کی جا سکتی ہے اور شاید بڑی حد تک سیلاب سے ہونے والے نقصانات بھی کم کئے جا سکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ سیلاب صرف زیادہ بارشوں سے نہیں آیا بلکہ یہ کہنا اُس سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے سیلاب آپے سے باہر ہوا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں خشک سالی اور قحط جیسی صورتحال کا ذکر کیا جا رہا تھا۔ دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو رہی تھی لیکن چند ہی مہینوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے جسے ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم پڑ گئی ہے تو قومی فیصلہ سازی میں سیلاب کا باعث بننے والے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے بھی شامل ہونے چاہئیں جو ”اعلیٰ طرز حکمرانی“ کا مظہر ہوگا۔ کوئی بھی حکومت سو کلومیٹر چوڑی جھیل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کیسے کر سکتی ہے؟

 یہ جھیل سندھ کے میدانی علاقوں میں دیکھی جا سکتی ہے اور اِس کی تصاویر امریکہ کے خلائی تحقیقی مرکز ناسا (NASA) اور موڈیز (MODIS) نے جاری کی ہیں‘ جنہیں پاکستان سے زیادہ بین الاقوامی میڈیا نے دکھایا اور اِسے اہمیت دی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں لوگ بے یار و مددگار پھنسے ہوئے ہیں۔ اُن کے چاروں طرف جھیل ہے۔ یہ کس قدر بڑا انسانی المیہ ہے اِن اعدادوشمار سے عیاں ہوتا ہے کہ دادو شہر کی آبادی پندرہ لاکھ (ڈیڑھ ملین) ہے اور یہ پورا شہر ’آٹھ فٹ‘ پانی کے نیچے ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کس قسم کے انتظامات (ڈھانچہ) مستقبل میں سیلاب کے پانی کو اس قدر بلند و تباہ کن سطح تک پہنچنے سے روک سکتا ہے؟ کیا ’اعلیٰ طرز حکمرانی‘ یہ ہونی چاہئے کہ سیلاب سے متاثرہ پورے کے پورے شہروں اور دیہی علاقوں کو خالی کروا لیا جائے؟ 

یا حکومت دریائے سندھ کے ساتھ ایسے پشتے اور دیواریں بنائی جائیں‘ جو کم سے کم بھی دس لاکھ کیوسک پانی کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں یہ درست ہے کہ اعلیٰ طرز حکمرانی نقصانات کو کچھ حد تک تو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی تھی لیکن صرف طرز حکمرانی سے سیلاب کا پانی کم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی قدرتی آفات کو اِس طرح کے انتظامات سے روکا جا سکتا ہے البتہ اِس کے نقصانات کم ضرور کئے جا سکتے ہیں سیلاب کی صورت میں جو کچھ بھی رونما ہوا ہے وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے اور ملک میں آب و ہوا سے متعلق ایک ایسی بڑی تبدیلی و تباہی کا عکس ہے جس سے نمٹنے کے لئے طویل المدتی حکمت عملی کے تحت جدوجہد کرنا پڑے گی ہمیں قومی و صوبائی فیصلہ سازوں سے کہنا چاہئے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کو زیادہ سنجیدگی سے لیں اور ترقیاتی ترجیحات وضع کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کو خاطرخواہ اہمیت دیں لیکن صرف طرزحکمرانی ہی اس مسئلہ کا حل نہیں البتہ یہ قدرتی آفت کے اثرات کو کچھ کم کر سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی بڑا مسئلہ ہے اور اِس سے پاکستان تن تنہا نہیں نمٹ سکتا۔