کہاں آواز دیں تم کو کہاں ہو

گلیاں کوچے تب بھی تنگ تھے اور اب بھی ویسے کہ ویسے ہی موجود ہیں بلکہ اب تو ان گلیوں میں اندر جا کر احساس ہوتا ہے کہ یہ تو مزید تنگی کا شکا رہیں‘بے شک گلیاں تنگ تھیں مگر سُونی نہ تھیں جیسی تھیں اب اس سے زیادہ آباد اور پر بہار ہیں  تنگ و تاریک کوچے بھی ہیں مگر کشادہ دلی جو تھی وہ کہیں گم گشتہ  ہو چکی ہے‘خندہ پیشانی جو تھی وہ کہیں ہجرت کرگئی ہے‘ گلی کوچے اب بھی وہی ہیں مگر ان میں رہائش پذیر اوپر  سے اجنبی چہرے ہیں‘ان سے تعلق تو کیا علیک سلیک بھی نہیں‘ ہر کسی کو جلدی ہے میرے سمیت ہر کوئی ا س میلے میں گم ہے‘کوئی کس مقصد کے پیچھے خوار وزار ہے اور کوئی کس کام کے لئے ان گلی کوچوں میں سے شارٹ کٹ راستہ اپنا کر کہیں سے کہیں نکل جانا چاہتا ہے کیونکہ کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ ہر ایک بندہ مصروف ہے۔ اپنے کام کاج اپنے دھندوں اپنے بکھیڑوں میں گوڈوں گٹوں تک دھنسا ہوا ہے۔ایسے میں دل کی تاروں میں سے جو دھن نکلتی ہے وہ پشاور کی گم شدگی کی رپورٹ دل میں درج کرتی ہوئی مل جاتی ہے پھر اس رپٹ کا عنوان بھی یہی ہوتا کہ ”کہا ں آواز دیں تم کو کہاں ہو“ہائے وہ پشاور جو تھا وہ ہے۔

درو دیوار بھی وہی ہیں اندرونِ شہر کی زندگی بلکہ زیادہ سرگرمی سے رواں دواں ہے مگر پوچھیں کہ رونق اس شہر کی ہے تو ہم کہیں جن سے اس شہرِ گل عذاراں کی رونق اور چمک دمک تھی وہ لوگ نہیں رہے وہ کہیں تہہ زمین جا سوئے ہیں تو کہیں بابے بن کر گھوم رہے ہیں۔کچھ گھروں میں بیماری کے بستر سے لگ گئے ہیں‘ایسے میں وہ شعر یاد آتا ہے کہ ”زیرِ زمیں سے آتا ہے جو گل سو سر بکف۔قارون نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا“کچھ تو شہر ہی میں ہو کرایک محلے سے دوسرے علاقے کو جا آباد ہوئے اور کھلے ڈلے ایریا میں مکان بنا کر اپنے گھروں  اوربنگلوں کے لان میں بیٹھے سہ پہر کی چائے نوش فرمارہے ہیں۔وہ اندرون شہر کی چاردیواری سے آخر کار تنگ آ کر کشادہ زمینوں پر جا مقیم ہوئے کیونکہ وہی جو کہتے تھے کہ ہم اپنی گلی اور محلے کو نہیں چھوڑیں گے وہی اپنا گھر بار فروخت کر رہے ہیں کیونکہ پیسہ تو بہت خراب چیز ہے‘ کسی سمجھ دار کا قول ہے کہ ”جب پیسہ بولتا ہے تو سچائی خاموش ہو جاتی ہے“ جتنی جتنی ہماری پشاوری معاشرت ترقی کرتی جاتی  ہے۔

ہم میں ایک خودکار طریق سے روپے پیسے کی لالچ او رزیادہ ہو رہی ہے‘شہری اپنے باپ دادا کے زمانے کے گھروں سے چپکے ہوئے تھے ان مرحومین کی آن بان شان کو گلے سے چمٹا کر بیٹھے تھے مگر کچھ عرصہ ہوا کہ زمانے نے ایسی کروٹ لی کہ اب کچھ کا کچھ ہو گیا ہے اور سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے کچھ تو دور پار کہیں شہری حدود سے نکل کر نوشہرہ کے پاس اضاخیل تک کے علاقے میں جا کر خیمے لگا بیٹھے ہیں۔ کوئی ورسک روڈ کی کسی گلی میں روپوش ہو گیا ہے او رکوئی یونیورسٹی روڈ پھر حیات آباد اور دلہ زاک روڈ  رنگ روڈ چارسدہ روڈ جی ٹی روڈ پر پشاور کے باہر جا کر اندر کسی ٹاؤن شپ میں زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر شہر کے تنگ و تاریک گلی کوچوں کے اندھیاروں میں وہ روشن جبین چہرے ڈھونڈنے جائیں او رنہ ملیں تو افسوس کاہے کا۔

پھر اس وقت خوشی کیوں نہ ہو جب ایسے اندھیرے میں کوئی آشنا چہرہ کوئی روشن شمع سا رخ ِ تابندہ مل جائے دو بابے آپس میں مل جائیں۔ کیا شعر ہے ”آئے عشاق گئے وعدہ ئ فردا لیکر۔ اب ڈھونڈئیے انہیں چراغِ رخِ زیبا لے کر“ ان چہروں کے سر کے بالوں پر وقت کے مصور نے سفید برش پھیر دیئے ہوں گے ان کے سروں میں نتھیاگلی کی برف جمی ہوگی وہ پہلے سے ہوں گے مگر پہچاننے میں اک ذرا دقت ضرور پیش آئے گی کیونکہ سر کے بالوں کی سفید روشنائی ستاروں کی روشنی کی طرح دھوکہ دے جائے گی‘کوئی آشنا صورت مل جائے تو لازمی طور پر اس پرانے یار کو اپنی بیٹھک میں ایک پیالی قہوہ پینے کی دعوت ضرور دیں گے۔

بھولی ہوئی شخصیات کے بارے میں ایک دوجے سے پوچھیں گے۔ کسی کے بارے اچھی اطلاع ہوگی کسی کے بارے میں جانکاری ہوگی کہ وہ تو کب کا دنیا ہی سے جا چکا ہے‘اس موقع پر دل کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ دو قطرے آنسوؤں کے گر پڑیں گے اور دوسرے کو تو کیا خود اپنے آپ کو خبر بھی نہ ہوگی”وفائے وعدہ نہیں وعدہ ئ دگر بھی نہیں۔وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں“ فیض کے اس شعر کے ساتھ دل پر ایک برچھی چل جائیگی ایک تیر سا جگر کے پارہوتا ہوا محسوس ہوگا۔