بارش کا پہلا قطرہ 


پا کستان کے ارب پتی تا جر نے سیلاب زدگان کی بحا لی اور تباہ شدہ گھر وں کی از سر نو تعمیر کیلئے اپنی کل ما لیت کا 75فیصد عطیہ کر نے کاا علا ن کر کے تمام دولت مند تاجروں‘جاگیرداروں‘ صنعتکاروں اور سیا ست دانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ آگے آئیں اور سیلاب زدہ لو گوں کی بحا لی میں حکومت کا ہا تھ بٹا ئیں‘ ایک غیر ملکی ٹیلی وژن چینل پر نشر ہو نے والے انٹر ویو میں پا کستانی تا جر نے اپنی طرف سے 2ارب ڈالر یعنی 4کھر ب 80 ارب روپے دینے کا عندیہ دیا ، انہوں نے اس مو قع پر کہا کہ پا کستان کے 140ارب پتی تا جر اور دولت مند لو گ اپنے مصیبت زدہ، بھا ئی بہنوں کی مدد کے لئے آگے آئیں گے تو حکومت کو با ہر کے ملکوں سے امداد لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘یہ ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی، غیر ملکی نشر یا تی ادارے کے اینکر پر سن نے جب سوال کیا کہ آپ نے ما ضی میں پاکستان کی حکومت اور سسٹم کو کر پٹ، بد عنوان اور نا قا بل بھروسہ قرار دیا تھا‘ سیلا ب زدگان کی بحا لی کے کا م میں حکومتی اداروں پر کس طرح بھر وسہ اور اعتما د کر تے ہیں؟ اس سوال
 کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سر کا ری قواعد وضوابط کی رو سے بحا لی کے کا موں کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے‘ ٹھیکہ داری اور کمیشن کا سسٹم آج سے 200سال پہلے رائج ہوا تھا‘اب تک رائج ہے اس کا متبادل اب تک سامنے نہیں آیا‘ غیر ملکی اینکر پرسن رچرڈ کویسٹ نے اگلا سوال داغتے ہوئے کہا کہ سیلاب متا ثرین کی بحالی کا کام آپ خود کیوں نہیں کرتے؟ اس پر پا کستانی تا جر نے جواب دیا کہ نجی سطح پر بھی یہ کام ممکن ہے، سول سو سائٹی کی سطح پر بھی متا ثرین کی بحا لی کا کام کیا جا سکتا ہے‘انہوں نے حساب لگا کر بتا یا کہ 4ہزار ڈالر یعنی 10لا کھ روپے میں ایک گھر تعمیر ہو سکتا ہے‘ اگر 25ارب ڈالر اکھٹے ہوئے تو متاثرین کو گھر فراہم کرنے کیساتھ ساتھ‘ سڑکوں‘ نہروں‘ سکولوں، ہسپتالوں اور آب نو شی سکیموں کی بحا لی بھی ہو سکتی ہے‘شرط یہ ہے کہ اس رقم کو دیا نت داری کے ساتھ اما نت سمجھ کر خر چ کیا جائے‘ انٹر ویو جن لو گوں نے دیکھا اور سنا ہے ان کو بڑا حو صلہ ملا ہے کہ وطن عزیز کے ایک تا جر نے مصیبت زدہ لو گوں کی تکلیف اور مجبوری سے نا جائز فائدہ اٹھا کر نا جا ئز منا فع خوری کے نئے طریقے تلا ش کر نے کے بجا ئے مصیبت زدہ بھا ئی بہنوں کی مدد کا بڑا منصو بہ پیش کیا اور بارش کا پہلا قطرہ اپنی طرف سے پیش کیا‘ دوسروں کو اس نیک کا م میں شا مل ہونے کی دعوت دی جہاں تک اینکر پر سن کے سوال کا تعلق ہے‘یہ کوئی راز نہیں، افسوس نا ک بات ہے اور سب کو پتہ ہے  کہ سرکاری اداروں کی اس کمی کو ایک طرف پا ک فو ج پوری کررہی ہے‘دوسری طرف بعض سما جی تنظیمیں اس کمی کو پورا کر رہی ہیں، تجربے میں یہ بات آتی ہے کہ جو کام ٹھیکہ داری سسٹم میں ایک کروڑ روپے کا ہو تا ہے وہی کام سما جی تنظیموں کی وساطت سے اپنی مدد آپ کے تحت 40لا کھ روپے میں بہتر طریقے پر بہتر معیار کے ساتھ ہو تا ہے‘ 2001ء میں جو بلدیا تی نظام لا یا گیا تھا‘ اس کے تحت بلدیا تی اداروں کو وسیع اختیارات حا صل تھے‘ ضلع کے اندر فنا نس اینڈ پلا ننگ کا محکمہ فعال کر دار ادا کر تا تھا اور بلدیا تی اداروں کے ذریعے پرا جیکٹ لیڈر کو فنڈ جا ری کر کے بڑے بڑے کا م کئے جاتے تھے‘ عام مشا ہدے میں یہ بات آئی ہے کہ این جی اوز دیہی تنظیموں کے ذریعے جو کام 2کروڑ روپے میں کر تے تھے وہ کام 2014ء کے بعد ٹھیکہ داروں کو دیئے گئے تو 20کروڑ یا 72کروڑ روپے خر چ ہونے کے بعد منصو بے ناکام ہوئے‘ اس وجہ سے حکومت نے سیلا ب زدگان کو مکا نا ت کی تعمیر کے لئے 4لا کھ روپے نقد ادا کر نے کی تجویز دی ہے‘ اگر ملک ریا ض اور دیگر دولت مند پا کستا نیوں کے عطیا ت بھی نقد تقسیم کئے جائیں تو اس کا براہ راست فائدہ متا ثرین کو ملے گا۔